Allah ke Zikar Se Ghafil Hone Ka Injam

اللہ کے ذکر سے غافل ہونے کا انجام

0:00
0:00
Advertising will end in 
Nothing found!
This content is private
Please enter valid password!

درس کی تحریر: اللّٰہ کے ذکر سے غافل ہونے کا انجام

اَلْحَمْدُ لِلّٰەِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلَی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی۔اَللّٰھُمَّ انْفَعْنَا بِمَا عَلَّمْتَنَا وَ عَلِّمْنَا مَا يَنْفَعُنَا وَ زِدْنَا عِلْمَا۔ سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ

اللہ کی توفیق سے آج ہم پندھرویں اور سولہویں پارے کی تلاوت سن رہے ہیں اور اللہ تعالٰی ہمارا یہ پڑھنا، سننا قبول فرمائے اور اسے روزِ قیامت ہماری نجات کا سبب بنائے۔ اس وقت مختصر سے لمحات میں جو آیات پیشِ نظر ہیں، وہ سولہواں پارہ ہے، سورہ طٰہٰ ہے، آیت نمبر 124، 125، اور 126۔ ارشادِ باری تعالٰی ہے:

وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا وَّنَحۡشُرُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَعۡمٰى

سورة طه:١٢٤

ترجمہ: اور جس نے میرے ذکر سے منہ موڑا، میرے ذکر سے اعراض کیا، پشت پھیری تو پس یَقِیناً اس کی معیشت، گزران تنگ ہے اور ہم روزِ قیامت اندھا کر کے اس کا حشر کریں گے۔

روزِ قیامت اندھا ہو کے پیش ہو گا۔ وہ کہے گا اے میرے رب آپ نے مجھے اندھا کر کے محشر میں کیوں پیش کیا جبکہ میں تو بینا تھا، آنکھوں والا تھا۔ تو اللہ تعالٰی فرمائیں گے اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں

قَالَ كَذٰلِكَ اَتَـتۡكَ اٰيٰتُنَا 

ترجمہ:  اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں۔

فَنَسِيۡتَهَا​ۚ 

ترجمہ: پس تو نے انہیں بھلا دیا

وَكَذٰلِكَ الۡيَوۡمَ تُنۡسٰى

ترجمہ: اسی طرح آج تجھے بھی بھلا دیا جائے گا۔

اللہ نہ کرے کہ ہم ایسے شقی القلب، سیاہ بخت یا بد نصیب ہوں کہ قیامت کے دن ہمارا یہ حشر ہو۔ یہ تین آیاتِ کریمہ اپنے الفاظ میں، اپنے معنی میں، اپنے مطالب مفاہیم میں اتنا کچھ لیے ہوئے ہیں کہ ہم انہیں بیان کرنے کا حق ادا کر سکتے ہی نہیں ہیں۔ اشارات کی زبانی جو بات کرنی ہے وہ یہ ہے کہ جو اللہ نے فرمایا کہ جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا، اس سے کیا مراد ہے۔ مفسرین نے اس کے ایک سے زیادہ معنی بیان کیے ہیں۔

  • ایک معنی یہ کہ جس نے قرآن پاک سے اپنا تعلق توڑ لیا، یہ کتاب، کتابِ ہدایت ہے اور صرف رمضان کے لیے نہیں، سال کے بارہ مہینوں کے لیے ہے۔ تو جس نے اس کتاب سے اپنا تعلق توڑ لیا، وہ سمجھ لے کہ اس کی دنیا بھی برباد اور آخرت بھی تباہ۔
  • دوسرا مطلب جو مفسرین نے بیان کیا کہ جو ویسے ہی اللہ کے ذکر سے غافل رہا۔ زبان فر فر قینچی سے بھی زیادہ تیز چلے۔ غیبت، جھوٹ، چوری، مکر و فریب، گالی گلوچ، لعن طعن، صَعْب و شَطَن، بُرا بھلا کہنا اس میں تو یدِ طولیٰ رکھے۔ لیکن جب اللہ کے ذکر کا وقت آئے تو زبان گنگ ہو جائے اور اللہ نہ کرے کہ ہم ایسے بدنصیب ہوں لیکن لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اسی طرح ہے۔
  • تیسرا معنیٰ جو اس کا مفسرین نے بیان کیا کہ جو نماز میں سستی کرے، غفلت برتے یا نماز چھوڑ دے تو اس کا حشر کہ اس کی معیشت گزران تنگ ہو جائے۔

یہ تین معنی مفسرین نے ذکر کے بیان کیے ہیں۔ 

اس کے بعد جو معیشت مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا کہ معیشت گزران تنگ ہو گئی اس سے کیا مراد ہے؟ اس کے بارے میں بھی مفسرین کے ایک سے زیادہ اقوال ہیں۔

 پہلا قول یہ کہ دنیا میں اس کی گزران، اس کا رہن سہن وہ انتہائی زیادہ سختی اور انتہائی زیادہ تنگ دستی کا شکار ہو جائے۔ بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے ایسے ہیں جنہوں نے کبھی نماز نہیں پڑھی، قرآن کھولا نہیں، اللہ کا ذکر زبان تک نہیں لائے لیکن اتنے خوشحال کہ لوگ دیکھ کر رشک کرتے ہیں! یہ اکثر لوگ سوال کرتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ سب چیزیں، ساری خوشی، مسرت، سرور، لطف۔۔۔ مال و دولت، پیسے اور نعمتوں میں نہیں ہے۔ دل کا سکون، دماغ کا چین، اطمینان، اہل و ایال کی بہتری، ان کی فرمانبرداری۔ یہ تمام چیزیں مل کر گزران بنتی ہیں۔ اب بڑے بڑے امیر ایسے ہیں کہ بظاہر تو بڑا پیسہ ہے، مال و دولت ہے، لیکن دل ہر وقت اس طرح دھک دھک کرتا کہ پاس بیٹھا ہوا شاید آواز سن لے۔ خوف طاری ہے، بے اطمینانی ہے، ڈر ہے کہ کہیں یہ نہ ہو جائے، کہیں یہ نہ ہو جائے۔

اور اللہ تعالٰی سب کی اولاد فرمانبردار بنائے۔ کہیں اولاد کی نافرانی کا سامنا ہے۔ کہیں بیوی، اُس کی طغیانی، سرکشی موجود ہے۔ کہیں رشتہ داروں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کہیں برادری نے زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ کہیں کاروبار کی الجھنوں نے عمر سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا ہے۔ غرض کوئی ایک پریشانی ہے دنیا میں؟ تو صرف مال و دولت کو دیکھ کر فیصلہ کرنا کہ واہ کیا بات ہے اس کی زندگی کی! یہ احمقانہ بات اور بے عقلی کی بات ہے۔ تو پہلا قول جو مفسرین نے کہا کہ اس کی معیشت تنگ ہو جائے۔ مال ہو، دولت ہو لیکن برکت نہیں ہے۔ اطمینان نہیں ہے۔ تو اس دولت اور مال کا کیا فائدہ جو مزید زندگی کو عذاب بنائے۔ کتنے ایسے ہیں کہ مال و دولت کی فراوانی بہتات رات کو سونے نہیں دیتی کہ کہیں کوئی چھین کے نہ لے جائے۔ کہیں ہم سے چھن نہ جائے۔ چوری، کرپشن، رشوت، اس کا مال کہیں پکڑ، گرفت نہ ہو جائے۔ 

دوسرا قول جو مفسرین نے بیان کیا معیشت مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا کا، کہ یہ جو اللہ کے ذکرسے منہ موڑنے والا یا قرآن کے یا نماز سے، اس کی قبر انتہائی تنگ کر دی جائے گی۔ اور اللہ تعالٰی محفوظ رکھے۔ اتنی کہ دائیں طرف کی پسلی بائیں طرف اور بائیں طرف کی دائیں طرف چڑھ جائے گی۔ دنیا میں بڑے بڑے آرام دہ بستر، بڑی بڑی عیش و عشرت والی آرام گاہیں اور لاکھوں روپیہ لگا کر لوگ بیڈ روم سجاتے ہیں لیکن کیا لاکھوں روپیہ لگا کر سجانے سے نیند آ جاتی ہے؟ آتی ہے نیند۔۔۔؟ یہ دنیا کی حالت ہے جسے ہم کچھ سنوار سکتے ہیں، بنا سکتے ہیں۔ تو قبر میں کیا ہو گا جس میں ہمیں کُلی طور پر بے اختیار کر دیا گیا ہے، کچھ پلّے نہیں ہمارے، تو وہاں کیا ہو گا۔ تو دوسرا قول کہ منہ موڑنے والا ہے نماز سے، قرآن سے اس کی قبر میں حالت اتنی بری ہو گی کہ الامان الحفیط ۔ 

تیسری بات۔ ہماری گفتگو کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ یہاں اللہ نے اسے یہ کیوں کہا کہ قیامت کے دن اندھا کر کے پیش کیا جائے گا۔ اللہ کے روبرو حاضر ہو گا۔ مفسرین نے بیان کیا کہ سامنے کی بات ہے قراان کی آیات سنتا دیکھتا، قرآن اس کے پاس موجود، اللہ کا ذکر اس کے سامنے کرنے والے لوگ موجود، مسجدوں میں باجماعت نماز پڑھنے والے لوگ موجود۔۔۔ لیکن وہ ان پر ایک تمسخرانہ سی نظر ڈال کر گزر جاتا۔ یہ بیوقوف ہیں انہیں دنیا کا کوئی کام نہیں ہر وقت مسجد میں گُھسے رہتے ہیں۔ یہی کہتے ہیں نا؟ تھوری سی مصروفیت ہو گئی کوئی نماز کا کہے تو بڑے بھلے مانس ایسے ہیں کہ غصے سے لال پیلے ہو جاتے ہیں کہ تمہیں عقل کوئی نہیں ہم میٹنگ میں ہیں تم نماز کا کہہ رہے ہو۔ نماز بعد میں پڑھ لیں گے۔ 

اور یہ بڑے بڑے وہ ہیں جو اسلام کے نام لیوا ہیں۔ بڑے بڑے وہ ہیں جو اسلامی کاز(cause) کے نام نہاد سو کالڈ(so called) علمبردار ہیں۔ تین تین، چار چار نمازیں گول ہو رہی ہیں، دین کا کام کر رہے ہیں۔ تو جب آنکھوں والا، اتنی اتنی موٹی آنکھوں والا دنیا میں یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے اس سے دور رہے۔ تو یہ اس بات کا سزاوار ہے، حقدار ہے۔ کہ قیامت کے دن اس کی بینائی چھین کر اسے اندھا کر کے اٹھایا جائے۔ اور اللہ قادر ہیں، مقتدر ہیں جو چاہے کریں۔ اور یہ سزا تو قرآن پاک میں اللہ نے بیان کی۔ ناجانے اس کے علاوہ روزِ قیامت ایسے بدبختوں کے لیے کیا کیا سزائیں موجود ہیں۔ اور اللہ تعالٰی ہم سب کو محفوظ رکھے۔ 

چوتھی بات۔ جو میرے، آپ کے سمجھنے کی اور اسے پر ہم اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہیں کہ میں، آپ کس طرف جا رہے ہیں؟ ہم خود بھی، ہمارے اہل و ایال بھی، گھر والے بھی، رشتہ دار بھی اور سارے کا سارا معاشرہ۔ کیا ہم کتاب حکیم میں موجود اللہ کی اس گرفت، عذاب، عِقاب، وعید اس سے بچنے کے لیے کوشاں ہیں؟ اور اس کی ایک بہت سادہ سی مثال اور پہلے بھی بہت دفعہ سن رکھی ہے لیکن یاد دہانی کے لیے دوبارہ۔ بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ہم کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں۔ مہینے کا ہزاروں یا لاکھوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے۔ صبح سے شام تک معصوم سا بچہ اتنا بھاری بیگ اٹھائے پِس کر رہ جاتا ہے۔ یعنی بچہ تو اتنا ہے بیگ اس سے زیادہ بڑا ہے۔ اور اتنی مہنگی کتابیں ہیں جیسے پتہ نہیں بچہ پی۔ ایچ۔ ڈی کر رہا ہے اور اسے ناک صاف کرنا نہیں آتا۔ لیکن پاگل ہوئےہوئے ہیں سارے۔ کیا دین والے کیا دین سے دور سب اسی روش ڈگر پر چل رہے ہیں۔

اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ہم کتنا وقت اللہ کے ذکر، قرآن، نماز اسے سیکھانے کے لیے ان پر صرف کرتے ہیں؟ بس۔ کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میں، اور وہاں سے لے کر وہاں تک ہر کوئی اپنے گریبان میں جھانکے اور اس سوال کا جواب تلاش کرے۔ اگر تو اس کا ضمیر مطمئن ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کے لیے کوشاں ہے، وقت لگاتا ہے، پیسہ خرچ کرتا ہے۔ تو پھر انشااللہ وہ اچھے راستے پر ہے اور اللہ تعالٰی سے خیر کی امید ہے۔ اور اگر نہیں، اللہ معاف کرے، اکثریت کا جواب نہیں میں ہے۔ ہم تو آدھا گھنٹہ بچوں کو مسجد میں نہیں بھیجتے۔ قاری صاحب تھوڑا سا لمبا پڑھا دیں کسی کا باپ آ جاتا ہے، کسی کی ماں آ جاتی ہے کہ بچوں کو دیر کر دی ہے اس نے اکیڈمی جانا ہے۔ اس کا یہ ہے، اس کا وہ ہے۔ چاہے بچے مسجد سے نکل کر دو گھنٹے باہر کھیلتے رہیں، اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ لیکن مسجد میں پانچ منٹ زیادہ لگ جائیں، یہ گھروں میں تباہی آ جاتی ہے۔

اور پھر اچھے بھلے بالغ، جوان بچے سکول، کالجز، یونیورسٹیز جانے والے، ان کے نمازوں کے ادا کرنے کا تناسب کتنا ہے۔ اور والدین انہیں اس راہ پر لگانے کے لیے کتنی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سوال میں، آپ ہر ایک اپنے سے پوچھ لے اور ان سوالات کے آئینے میں ان آیاتِ کریمہ کو سمجھ لے۔ کوئی زیادہ مشکل بات نہیں ہے۔ دو اور دو چار اس میں تو شاید کوئی غلطی کر جائے لیکن جس طرح یہ بات دو ٹوک واضح، اگر ہم اب بھی نہ سمجھیں، اب بھی ہماری آنکھیں نہ کھلیں، اب بھی ہمارے دلوں کا زنگ، میل کچیل دور نہ ہو تو پھر ہم اپنی مسلمانی کا جائزہ لیں کہ ہمارا مسلمان کدھر ہے ہمارا ایمان کدھر ہے۔ 

تو یہ جو بات ہم نے کہی سنی اور اللہ کرے اخلاص بھی ہو اور سمجھنے سمجھانے کی غرض وہ بھی ٹھیک طریقے سے ہو۔ میں، آپ اس مبارک رات میں اپنا جائزہ لیں، گریبان میں جھانکیں، نفس کا محاسبہ کریں کہ کہیں ہم ایسے سیاہ بخت لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں۔ بچے بڑی بڑی ڈگریاں لے لیں۔ فورن کوالیفیکیشن کے حامل ہو جائیں اور انہیں باپ کا جنازہ نہ پڑھنا آئے تو کوئی ہے فائدہ اس چیز کا۔ بولیئے کوئی ہے فائدہ؟ اور کتنے ایسے ہیں۔ آنکھوں دیکھی بات ہے اور لوگ جانتے ہیں کہ انتہائی کی پوسٹ(key post) پر ساری زندگی محنت کر کے کمایا، بچوں کو کھلایا، اب فوت ہوئے۔۔۔ بچے باہر فارن میں ہیں۔ باپ کی لاش سرد خانے میں تین دن، پانچ دن، سات سات دن سے پڑی ہے، بچے آ ہی نہیں رہے۔ آنکھوں دیکھی باتیں ہیں۔ تو ہم پڑھا لکھا کر انہیں کیا بنا رہے ہیں! کس طرف لے جا رہے ہیں؟ اور ان کی اس پڑھائی کا ہمیں دنیا میں یعنی آخرت کی بات تو بعد کی ہے دنیا میں ہمیں کیا فائدہ ہے! کہ پڑھیں، باہر بھاگیں، بوڑھے ماں باپ بیچارے یہاں رُلتے رہتے ہیں۔ سال، دو کے بعد دو چار مہینے کا ٹور لگا لیا خوش ہو گئے کہ بچوں کو دیکھ آئے ہیں۔ پھر بابا جی اور بُڑھیا بی بی اکیلے اپنے گھر میں ادھر۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ تو میں، آپ عقل کے ناخن لیں۔ اپنی عقل سیدھی کریں، اپنی روش درست کریں۔ ڈگر بدلیں تا کہ اللہ کے فضل و کرم سے دنیا میں بھی کامیاب ہوں اور آخرت میں بھی سرخرو ہو جائیں۔

رب العالمین اپنے فضل و کرم سے مجھے اور آپکو اس بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ صَلَّی اللّٰہُ مَا عَلٰی النَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ صَحْبَہٖ اَجْمَعِیْنْ 
Share on WhatsApp