Awlad Ke Mustaqbil Ka Intikhab

اولاد کے مستقبل کا انتخاب

0:00
0:00
Advertising will end in 
Nothing found!
This content is private
Please enter valid password!

درس کی تحریر: اولاد کے مستقبل کا انتخاب

اَلْحَمْدُ لِلّٰەِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلَی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی۔ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ۔ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ۔

اللّٰہ مالک کی توفیق اور نوازش سے گزشتہ سبق میں یہ بات عرض کرنے کی عاجزانه کوشش کی جا رہی تھی کہ خلیل الرحمٰن، ابراهیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لیے کیا منتخب کیا۔ انہوں نے اپنی اولاد کی منزل، ان کا فیوچر(future)، اللّٰہ کریم سے کیا مانگا ہم سن چکے اللّٰہ کی توفیق سے کہ ان کا ہدف، ان کا گول (goal)، ان کا ٹارگٹ (target)، ان کا مقصود اپنی اولاد کے لیے یہ تھا کہ وہ اللّٰہ کے غلام بن جائیں، اللّٰہ کے تابعدار بن جائیں۔ پھر اس کے بعد اللّٰہ مالک کی توفیق سے یہ بات سمجھنے کی عاجزانہ کوشش کا آغاز ہوا کہ انہوں نے اپنے اس مقصد کو پانے کے لیے کیا تدابیر، کیا طریقے، کیا اسالیب استعمال کیے۔ 

ایک طریقہ اللّٰہ کی توفیق سے جو ہم سن چکے ہیں وہ یہ تھا کہ اپنی اولاد کو اس بارے میں اپنی ساری زندگی، موت کے آنے تک وعض و نصیحت کرتے رہیں۔

 یہ بات قدرے تفصیل سے، اللّٰہ مالک کی توفیق سے عرض کی جا چکی ہے اور اس کو دہرائے بغیر۔۔۔ انہوں نے جو دوسری تدبیر اس حصے میں اختیار کی اور بہت ہی زیادہ دکھ کی صورتِ حال یہ ہے کہ کہنے والے اور سننے والے حضرات و خواتین، ان کی ایک بڑی تعداد اس دوسری تدبیر کے بارے میں سیَّدنا ابراہیم علیہ السلام کے بالکل برعکس، بات کڑوی ہے لیکن اس کا کرنا میں اپنی ایمانی اور دینی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ میرے خلاف ہو یا آپ کے، اس کی مجھے کوئی پروا نہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے صرف اولاد کے لیے بہترین مستقبل، فیوچر، منزل، اس کا انتخاب ہینہ کیا، اس کے لیے ضروری تدابیر اختیار کی اور ان تدابیر میں دوسری، جو آج کا ہمارا سبق ہے وہ یہ ہے کہ – اپنی اولاد کو اللّٰہ کے لیے ہر باپ، ہر ماں اس پر پوری توجہ کرے – میری ٹوٹی پھوٹی عاجزانہ کوشش یہ ہے کہ بات وہ کروں جس کا مجھ سے اور آپ میں سے ہر ایک کے ساتھ تعلق ہو، کچھ لے کے جائیں، وہ تدبیر یہ تھی اپنی اولاد کو ایسا ماحول دینے کی کوشش کی جس ماحول میں انہیں رب کا غلام بننے میں مدد ملے۔

آیئے! رب ذوالجلال کے قرآن کریم میں ان کے حوالے سے اس بات کو سنتے ہیں، تیرھواں پارہ سورة ابراہیم علیہ السلام آیتِ شریفہ سینتیس 37، انہوں نے اللّٰہ کے حضور التماس کی۔

رَّبَّنَآ إِنِّىٓ أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِى بِوَادٍ غَيْرِ ذِى زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ ٱلْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ

[سورة ابراہیم : ۳۷]

اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد سے وہاں بسایا ہے جہاں کھیتی نہیں۔

 اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد سے وہاں بسایا ہے جہاں کھیتی نہیں۔

 تو کیوں بسایا؟

 رَبَّنَا لِيُقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ عِندَ بَيْتِكَ ٱلْمُحَرَّمِ،کھیتی نہیں لیکن آپ کا حرمت والا گھر ہے۔ تو حرمت والا گھر اس کے پڑوس میں بسانا کیوں ہے؟ بس دیکھیں اور نعرے لگائیں۔ نہیں! رَبَّنَا لِيُقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ۔ اے ہمارے رب! کھیتی کے بغیر زمین میں، آپ کے حرمت والے گھر کے پڑوس میں بسایا اس لیے ہے تاکہ وہ نماز کو قائم کریں۔

حضرات و خواتین! ابراہیمؑ کو اپنی اولاد کو مسلمان بنانے کے لیے ضرورت ہے کہ ماحول دینی ہو۔ اللّٰہ کے گھر کا پڑوس ہو۔ کیا میرے اور آپ کے گھروں میں اولاد کے اس بات کا اہتمام ہے؟ آئیے! ہر باپ، ہر ماں اور کہنے والا سب سے پہلے! میں کچھ عناوین۔۔۔ صرف اشارات ذکر کرتا ہوں اور اس کا جواب ہر والد خود دے۔ ہمارا ماحول جو اولاد کو دے رہے ہیں، وہ کیسا ہے؟ اپنے گھروں میں جن کا استقبال کرتے ہیں کبھی سوچا ہے کہ یہ ہماری اولاد کے لیے اچھا ماحول دیں گے یا گندہ دیں گے، جہاں جاتے ہیں وہاں کیا ہماری چھان پھٹک ہے؟ کہ اولاد کی تربیت، اس کا گروہ، اس کی دینداری، اس کی رب کی غلامی اُبھر جائے گی یا بیڑہ غرق ہو گا۔ سوچا ہے کبھی؟

 اور پھر تعلیمی ادارے جن کا انتخاب کیا جا رہا ہے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيْهِ رَٰجِعُونَ۔ غلط ہو تو ٹوک دیجیے۔ ان اداروں کے پڑھے ہوئے جو نوجوان سیدھی راہ پہ آتے ہیں، ان سے پوچھیے وہاں کیا ہو رہا ہے۔ او(o) لیول تک بچے اور بچیوں میں نشہ آ چکا۔ او(o) لیول تک پہنچتے پہنچتے وہ لڑکوں اور لڑکیوں میں تعلقات ہیں، مسجد اس کے ذکر کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ ان بچوں اور بچیوں کی راتوں کو نوٹ کیجیے۔ اپنے اپنے کمروں میں جہاں ماما کو داخل ہونے کی اجازت نہیں، باپ داخل ہو کھانا چھوڑ دیتے ہیں میری پرائیویسی (privacy) کو ڈسٹرب کیا۔ ماں کی شکل دیکھنا، بابا کی شکل دیکھنا، ان کو گوارا نہیں۔ ہاں! فیڈ (feed) کرتے جائیں، نوٹ دیتے جائیں، گاڑی بھی دے دیں، سب کچھ دے دیں، شکل نہ دکھائیں کہ ہمارے پرسنل، ہماری ذاتی زندگی میں خرابی پیدا کرتے ہیں۔ ہے کہ نہیں؟ کہاں کی تربیت ہے یہ؟ گندے سکولوں کی ہے، گندے کالجوں کی ہے، گندے اداروں کی ہے۔ اور ماں باپ کہتے ہیں جی اپ گریڈ (upgrade) آکسفورڈ کا منہج ہے، کیمبرج کا نصاب ہے۔ خاک ہے اس منہج پر، جو میری اور آپ کی اولاد کی تربیت کو برباد کرے کیا کریں گے اس منہج کو. رونا ہے، روتے جائیں رونا بس نہیں ہو گا۔

پھر اس کے بعد رشتے، ان کے انتخاب میں کیا دیکھتے ہیں۔ امامِ بخاری اور امامِ مُسلم نے سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت کیا، نبیِ کریمﷺ نے بتلایا کہ لڑکی کا انتخاب کیوں کیا جاتا ہے؟ اسباب بیان فرمائے، پھر عام قاعدہ دیا۔

فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ

صحیح البخاری/النکاح 15 (5090)، صحیح مسلم/الرضاع 15 (1466)

تیرے ہاتھ خاک آلود ہو جائیں دین والی لاؤ۔

آئے تو نقشہ بدل دے اگر دین والی نہیں آئے گی تو کیا بربادی لائے گی۔ جو خود پٹڑی سے اتری ہو گی وہ لڑکے کو پٹڑی پہ لانے کی کوشش کرے گی؟ گندی اور گندے، وہ کیا چاہتے ہیں، جو ان کا ساتھی ہے وہ ان سے زیادہ گندہ ہو۔ پنجابی میں جو کانا ہو، وہ دوسروں کو کیا چاہتا ہے کہ کانا نہیں نابینا ہو جائے۔ یہ ہے کہ نہیں! اور پھر رشتوں کے بارے میں بات چلتے ہوئے کہاں جائے بیٹی۔۔۔ یہ ماشآاللّٰہ رشتہ ملا ہے، لڑکی کے پاس پاسپورٹ ہے، لڑکے کے پاس گرین کارڈ ہے۔ بس! اگر وہاں وہ کھوٹا ہے، جواریہ ہے، نشہ کرتا ہے، ایک سے زیادہ سہیلیوں والا ہے، میری بیٹی کو وہاں کیا فائدہ؟ وہ سہیلیوں والا ہے، جو نیک بچی وہاں جا رہی ہے وہ بھی جا کے دوست ڈھونڈے؟ جس کے لیے جا رہی ہے وہ گندہ ہے۔ اُس کی اماں اور ابو نے دیکھا پاسپورٹ، اُس کی اماں اور ابو نے دیکھے ڈالر، اب جوخود کھوٹا ہے وہ میری بیٹی کے ساتھ کب وفا کرے گا۔ اور جب بیٹی وفا نہ پائے گی تو کیا کرے گی؟ اللّٰہ چاہے تو وہاں جا کے یہاں سے نیک ہو جائے لیکن ہم نے اسے غرق کرنے میں کوئی کسر چھوڑی؟

 ابراهیم علیہ السلام نے ایک اور تدبیر جو اولاد کو صحیح معنوں میں اللّٰہ کا غلام بنانے کے لیے اختیار کی ، ربِ ذوالجلال نے اس کو اپنے کلامِ پاک میں محفوظ کیا۔ سیـدنا خلیل الرحمان علیہ السلام، بچے کو، جن کا بیٹا پکڑ لے، سیـؔدنا خلیل الرحمان علیہ السلام بیت اللّٰہ کی اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر تعمیر کر رہے ہیں، اللّٰہ تعالٰی سے چار دعائیں کی اور ان میں سے چوتھی دعا توجہ فرمائیے 

رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡ​ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ۔

[سورۃ البقرۃ: ١٢٩]

اے ہمارے رب! اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔

اے ہمارے رب! ان میں، کن میں؟ میری اولاد میں جو میں بے آب و گیا جگہ میں، آپ کے حرمت والے گھر کے پڑوس میں، آباد کر رہا۔ اے ہمارے رب! ان میں ایک رسول بھیج۔ وہ رسول کیا کرے؟  يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ  ان پر آپ کی آیات کی تلاوت کرے. وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ “اور انہیں کتاب و سنت کی تعلیم دے. وَ يُزَكِّيۡهِمۡ اور ان کو گناہوں سے پاک کرے۔ 

رک جائیے! کیا تدبیر ٹھہری؟ اپنی اولاد کے لیے جو مقصد متعین کیا اس کو پانے کے لیے اپنے رب سے کیا مانگا؟ معلم مانگا کہ کیمسٹری پڑھائے؟ فزکس پڑھائے؟ کمپیوٹر پڑھائے؟ ناچ گانا سیکھائے؟ فائن آڑٹس کی تعلیم دے۔ کیا کرے؟ اور ان میں سے بہت سی چیزیں ان کا سیکھنا لازم ہے۔ کیمسٹری، فزکس، بیالوجی ان کا سیکھنا فرضِ کفایہ ہے، لیکن یہ ساری چیزیں نمبر دو (2) ہیں۔ نمبر ایک، کتاب و سُنّت۔ تو ابراہیم علیہ السلام اپنی اولاد کے لیے  اپنے رب سے التجا کر رہے ہیں کہ اے میرے رب! میری اولاد کے لیے معلم دیجیئے۔

چار کام کرے۔ پہلا کام، آپ کی آیات کی تلاوت کرے اور کہاں کی آیات؟ قرآن کریم کی۔ دوسرا کام، قرآن کریم کی تعلیم دے۔ تیسرا کام، سُنت کی تعلیم دے جو قرآن کریم کی تشریح ہے۔ چوتھا کام، کتاب و سُنت کی تلاوت سے، قرآن و سنت کی تعلیم سے ان کو گناہوں سے پاک کر دے۔ حضرات و خواتین! کیا ہم اپنی اولاد کے لیے بندوبست کرتے ہیں؟ صبح بچے بھاگم بهاگ کہاں جاتے ہیں؟ بیٹیاں کہاں جاتی ہیں؟ ساری کاروائی نمبر دو کے لیے ہے۔ نمبر ایک کدھر ہے؟ اور اس کاروائی سے پہلے جو کمپلسری ( compulsory) چیز ہے جس سے کوئی استثنا نہیں، نمازِ فجر! ہمارے گھروں سے نکلنے والی فوج، جوان بیٹیوں اور جوان بیٹوں کی۔ کتنے نمازِ فجر ٹھیک وقت پر پڑھ کے نکلتے ہیں؟ کتنے نوجوان فجر کی نماز مسجد میں آ کے ادا کرتے ہیں؟ جس کا ادا کرنا فرض اور واجب ہے۔ ٹارگٹ کیا ہے؟ انسٹیٹیوشن (institution) پہنچنا ہے۔ اور اگر انسٹیٹیوشن (institution) میں چھٹی ہے تو گھر قبرستان ہے۔ اس دن ناشتہ کتنے بجے ہے؟ گیارہ، بارہ، تیرہ بجے۔ کہ آج چھٹی ہے۔ کہیں دور دور تک اس تعلیم کا نام و نشان ہے جس کے لیے خلیل الرحمٰن اللّٰہ سے دعائیں کر رہے ہیں؟ اور پھر کہتے ہین دعا کرو بچے نیک ہو جائیں۔

ہماری مثال، ٹکٹ چائنہ کا، ویزہ چائنہ کا اور دعا، یا اللّٰہ مکہ شریف پہنچا دے دل بہت چاہتا ہے۔ کیا نام ہے اس کا مکار، فریبی یا دیوانہ اور پگلا؟ یا کوئی اور نام رکھیں؟ آپ پڑھے لکھے ہو کوئی اچھا سا نام چنیئے۔ ہماری کیفیت یہ ہے  اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ اور پھر ان اداروں میں کیا جا کے پڑھتے ہیں، 1966 کی بات ہے کم و پیش چھپن سال پہلے، چھپن سال پہلے بی۔اے کی  نصاب میں سات کتابیں۔ ایک کتاب کا عنوان “وی ور ڈانسنگ (we were dancing)، ہم ناچ رہے تھے”۔ اس کا پڑھنا آپشنل نہیں، کمپلسری ہے میں نے خود پڑھی ہے۔ اب کتاب و سنت کی تعلیم بھی نہیں، کوئی پڑھانے والا بھی نہیں اور جس کے لیے بھاگم بھاگ جا رہے ہیں اس کا عنوان  “وی ور ڈانسنگ (we were dancing)، ہم ناچ رہے تھے” پھر ناچتے ناچتے کیا ہوا وہ کتاب کے اندر ہے۔

 دوسری کتاب، برنارڈ شا (Bernard shaw) کا ناول ” آرمز اینڈ مین (Arms and man)”، اس میں کیا مضمون ہے، مقام اجازت نہیں دیتا تفصیل عرض کروں لیکن سمجھانے کے لیے اللّٰہ کے لیے ارادہ اچھا ہے۔ ایک سپاہی فوجی بھگوڑا رات کے اندھیرے میں ایک گھر میں گھستا ہے، پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔ اور اس کتاب کا پڑھنا تب ساٹھ سال، چھپن سال پہلے آپشنل نہ تھا کمپلسری تھا۔ اس کے بغیر بی۔اے نہیں۔ تو اب کیا حشر ہو گا یہ بات ہے چھپن سال پہلے کی اب حیا کا گراف ہے سب اوپر ہے یا نیچے؟ کیا کر رہے ہیں، تباہی اس کی انتہا ہے اور بچاؤ کی تدابیر غالباً زیرو ہیں یا مائنس۔ صبح کے نکلے ہوئے یہ نوجوان پانچ بجے، چھ بجے، سات بجے آئے،پڑھ کے آتے ہیں اللّٰہ ہی جانتا ہے۔ کسی نے دیکھنا ہو کیا پڑھتے ہیں  یا یونیورسٹی کے لاؤنجوں میں جا کے دیکھیں، یونیورسٹی کے درختوں کے نیچے دیکھیں، یونیورسٹی کے کنٹین اور کیفے ٹیریا میں دیکھیں کیا ہو رہا ہے۔ میں مر جاؤں گا، چھت سے چھلانگ لگاؤں گا، یہ یونیورسٹی میں ڈرامے ہو رہے ہیں۔ ماشآ اللّٰہ پڑھ کیا رہے ہیں۔ آئے تھکے مارے، کھائے، سوئے، اکیڈمی ہے، ٹیوٹر ہےِ کس چیز کا؟ قرآنِ کریم کا؟ صحیح بخاری کا؟ اور رات کو میت پڑی ہوئی ہے کوئی کہیں مسجد میں نہیں آئے؟ بڑا تھکا ہوا تھا۔ قرآنِ کریم نہیں پڑھا؟ اللّٰہ کی قسم ٹائم نہیں۔ وقت ہو چکا یہیں بات روکتا ہوں۔ اللّٰہ کے لیے میں، آپ اپنے طرزِ عمل کو ریوائز کریں اس کا از سر نوجائزہ لیں۔

کوئی ایسا ہے جو چاہے کہ اس کے بچے مسلمان نہ بنیں؟ ہے تو ہاتھ کھڑا کرے اور جو چاہتے ہیں بچے اللّٰہ کے غلام بنیں وہ ہاتھ اوپر کھڑا کرے۔ حضرات و خواتین! میں، آپ اپنی جانوں پر رحم کریں۔ جب جانا مکہ شریف ہے، ویزہ سعودی عرب کا لیں، ٹکٹ جدہ کی لیں اور پھر اللّٰہ سے التجا کریں انشااللّٰہ اللّٰہ پہنچائے گا لیکن چائنہ کے ویزے اور چائنہ کی ٹکٹ سے سعودی عرب پہنچنے کی بات کرنا سوائے حماقت کے، پگلے پن کے، مکر و فریب کے اور کچھ نہیں۔ اور افسوس بہت سے کہنے والے، ناکارے، اور بہت سے سننے والے، حضرات و خواتین! دوسری قسم کے ہیں پہلی قسم کے نہیں۔ 

اللّٰہ یہ کھپنا کھپانا، چیخ و پکار کہنے اور سننے والے کو پہلے لوگوں میں شامل کرنے کا سبب بنا دے۔ اللّٰہ! یہ مہینہ میرے اور آپ کے لیے، اور پوری امت کے لیے، ہماری اولادوں کے لیے مبارک بنا دے۔ اللّٰہ ہمارا اور ہماری اولادوں کا گیئر بدل دے۔ ہم ریورس میں چل رہے ہیں۔ اللّٰہ! سیدھا گیئر لگا دے، سیدها گیئر لگا دے، سیدها گیئر لگا دے اور ریورس گیئر سے جو تباہی، بربادی ہم نے اپنے لیے خود حاصل کی ہے اس کے ڈھیر ہیں، اس کے کنویں ہیں۔ اللّٰہ ان گندے کنوؤں سے نکال دے۔ اللّٰہ ان خوفناک طوفانوں سے نجات دے دے۔ دعا تو کر رہے ہیں۔ اللّٰہ اس کے لیے تدبیریں کرنے کی بھی توفیق عطا فرما دے اور اللّٰہ کے لیے کچھ مشکل نہیں۔

وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمين

Share on WhatsApp