درس کی تحریر: میاں بیوی کے حقوق – حصہ ۲
الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ وَسَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِيۡنَ اصۡطَفٰى۔ اللَّهُمَّ انْفَعَناَ بِماَ عَلَّمْتَناَ وَ عَلِّمْناَ ماَ يَنْفَعُناَ وَ ذِدْ ناَ عِلْمَا۔ سُبْحَٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ ۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي. رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ۔ وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ۔ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ۔
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَيۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ؕ وَالّٰتِىۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَهُنَّ فَعِظُوۡهُنَّ وَاهۡجُرُوۡهُنَّ فِى الۡمَضَاجِعِ وَاضۡرِبُوۡهُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَكُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَيۡهِنَّ سَبِيۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيۡرًا
النساء:۳۴
شوہر کا مقام: وہی جنت وہی دوزخ
اللہ مالک کی توفیق سے گذشتہ سبق میں حقوق زوجین کے حوالے سے میاں بیوی کے حقوق کے متعلق عاجزانہ گفتگو کا آغاز کیا گیا۔ بیویوں کے کچھ حقوق سارے نہیں، بیویوں کے کچھ حقوق جو ان کے خاوندوں کے ذمہ ہیں اللہ مالک کی توفیق سے کتاب و سنت کی روشنی میں انہیں عرض کرنے کی حقیر سے عاجزانہ کوشش کی گئی۔ آج کے خطبہ جمعہ میں اسی عظیم موضوع کا دوسرا پہلو کہ مردوں کے خواتین کے ذمہ، خاوندوں کے بیویوں کے ذمہ کیا حقوق ہیں۔
اور ابتداہی سے شاید یہ عرض کرنا مناسب ہو کہ ساری بات جو اس بارے میں کتاب و سنت میں موجود ہے وہ تو عرض پچاس منٹ میں کرنا میرے ایسے ناکارے کیلئے ممکن نہیں۔ اللہ کی توفیق سے اس کا کچھ حصہ جو رب کریم کی توفیق سے عرض کیا جا سکا اس کے عرض کرنے کی عاجزانہ کوشش کی جائے گی۔ اللہ کریم اپنے فضل و کرم سے صرف ٹھیک بات ٹھیک انداز سے آپ حضرات و خواتین کے روبرو عرض کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو بات کہی جائے اس کا فائدہ کہنے اور سننے والوں کو اللہ کریم دنیا وآخرت میں نصیب فرمائے۔
آج کی اس گفتگو آج کے اس سبق کا پہلا نقطہ رب کریم نے جہاں بیوی کی شان و عظمت بہت بنائی اور اس بارے میں کچھ بات اللہ کی توفیق سے ہو چکی۔ خاونند کی حیثیت بھی بہت ہی زیادہ ہے۔ اس بارے میں آئیے ایک حدیث شریف سنتے ہیں۔ پانچ محدثین احمد، طبرانی، حاکم، البیہقی اورا لنسائی نے اپنے کتاب السنن الكبرىٰ میں اسے روایت کیا۔ سیدرنا الحسین بن محصن رضی اللہ تعالیٰ ان اس کے راوی ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی پھپو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بات۔۔۔ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اسی کام کے لیے حاضر تھا۔ جب وہ بات ہو چکی تو نبی کریم ﷺ نے اس خاتون سے پوچھا کیا آپ خاوند والی ہیں؟ انہوں نے اور کیا جی ۔حضرت ﷺ نے اس بی بی سے سوال کیا كيفَ أنتِ منهُ ؟ كيفَ أنتِ لهُ ؟ تو اپنے خاوند کے لیے کیسی ہے؟ یعنی تیرا معاملہ اپنے خاوند کے لیے کیسا ہے؟ اس خاتون نے کہا ما آلوهُ إلَّا ما عجزتُ عنهُ میں اپنی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں کرتی مگر جو کام میرے بس سے باہر ہو وہ نہیں کرسکتی۔ نبی محترم ﷺ نے اس بی بی کے لیے اور قیامت تک آنے والی ہر مسلمان خاتون کے لیے ایک عام قاعدہ ایک عام ضابطہ بیان کیا فرمایا [ فانظُري ] أينَ أنتِ منهُ ؟ دیکھنا کہ تمہاری اس کے حوالے سے کیا حیثیت ہے، تمہارا اس کے حوالے سے سٹیٹس کیا ہے إنَّما هوَ جنَّتُكِ ونارُكِ در حقیقت وہ کون تیرا خاوند وہ تیری جنت ہے اور تیری دوزخ ہے۔ اللہ اکبر۔ سمندروں کو کوزے میں بند کر دیا اگر تیرا معاملہ اپنے خاوند کے ساتھ درست ہے تو امید ہے کہ انشاءاللہ الرحمن تو جنت والی ہے اور اگر تیرا معاملہ اپنے خاوند کے ساتھ ٹھیک نہیں تو خدشہ ہے کہ تو دوزخ والی ہے۔
اور یہاں بہت زیادہ توجہ اور تنبیہہ کی ضرورت ہے کچھ بیٹیاں اور کچھ بڑی عمر کی عورتیں یہ سمجھتی ہیں اپنے اپنے خیال میں دین کا کام کرنا دین کی خدمت کرنا، ذکر اذکار میں مشغول ہونا یہ ان کو خاوند کے بارے میں حقوق سے چھٹی دلوا سکتا ہے۔نا۔۔ یہ بات نہیں۔ خاوند کی حیثیت نبی کریم ﷺ نے بیان فرما دی کچھ فرائض ہیں فرض نماز فرضی روزے ہیں ان کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں۔ وہ خاندور کی دسترس سے بالا ہیں۔ باقی کام درس سننے جانا ہے، درس لینے جانا ہے، دین کے لیے جانا آنا ہے. نماز تسبیح پڑھنی ہے، نفلی روزے رکھنے ہیں۔ نا۔۔ اس میں خاوند کی حیثیت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں۔ خاوند جتنا ذیادہ تعاون کرے اس کی خوشبختی ہے لیکن شریعت کی حدود واضح ہیں۔ دوبارہ سماعت فرما لیجیئے حدیث شریف اس کا ترجمہ فَإِنَّمَا هُوَ جَنَّتُكْ وَنَارُكْ۔ درحقیقت وہ اب بولو وہ سے مراد خاوند، شوہر وہ تیری جنت اور تیری دوزخ۔
خاوند کا بیوی پر حق
یہ گفتگو کا دوسرا نقطہ ہے نبی کریمؐ نے اور اس سے پہلے قرآن کریم میں خاوند کے بیوی پر حقوق کو تفصیل سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ایک حدیث شریف میں نبی کریمؐ نے سارے حقوق کا جو خاوند کے لیے بیوی کے ذمہ ہیں اس کا خلاصہ نچوڑ بیان کیا۔ حضرات آئمہ ترمذی، بیہقی اورابن ابی الدنیا تین محدثین نے اس حدیث کو روایت کیا۔ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ اس حدیث کے راوی ہیں۔
لَوْ كُنْتُ آمُرُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا
اگر غیر اللہ کے لئے سجدے کی گنجائش ہوتی تو عورتوں کو شوہروں کے لئے سجدے کا حکم ہوتا
معارف الحدیث – کتاب المعاملات والمعاشرت – حدیث نمبر 1421
اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کا حکم دیتا مراد یہ ہے مخلوق میں سے کوئی اس کے بارے میں میں حکم دیتا کہ مخلوق میں سے کوئی اس کو سجدہ کرے تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ کتنا زیادہ نبی کریمؐ نےخا وند کے بیوی پر حق کو واضح کر دیا۔
کنبہ ایک یونٹ اور مرد اس کا سربراہ
گفتگو کا تیسرا نقطہ قصدا ہر ہر نقطہ کے بارے میں تفصیلی گفتگو نہیں کر رہا کہ ایک ہی نقطہ کے بارے میں تفصیل شروع کی جائے تو شاید ایک بھی نقطہ پورا نہ کر پاؤں۔ تیسرا نقطہ کنبہ ایک ادارہ ہے۔ ہر ادارہ میں سارے لوگ برابر کے ہوتے ہیں۔ اورجو خواہ مخواہ معذرت کا انداز اختیار کرے۔ نہیں جی نہیں کسی کی پرواہ نہیں ہمارے لیے جو کتاب سنت ہے بس وہی ہے جس نے ماننا ہے مانے جس نے نہیں ماننا ہم نے کسی کے لیے کتاب سنت اس کو نہیں چھوڑنا اور اللہ کرے حقیقتاََ ایسا ہو رائی برابر کتاب سنت سے پیچھے ہٹنا۔ ہمیں کسی کی کیا ضرورت ہے۔ کسی کو مطمئن کرنے کے لیے کسی کو دین کے قریب کرنے کے لیے۔ نا۔۔ ہم ایسا کرنا حرام سمجھتے ہیں۔ دین، دین ہے اس کے قریب کرنا ہے آخری حد تک ہر شخص ذمہ دار ہے لیکن دین میں تبدیلی کر کے، نا۔ اللہ ایسا نصیب بھی نہ کرے اللہ ایسی زندگی نہ دے ایسا اللہ بولنا نصیب نہ کرے اور اس کے ساتھ ایسا توجہ کرو اور اس کے ساتھ ہمارا ایمان ہے رب زوالجلال نے جو کچھ بیان کر دیا اور محمد کریم ﷺ نے جو بیان کر دیا پوری کائنات مل کے اس کے مقابلہ نہیں کرسکتی۔ شاندار وہی ہے جو رب کریم نے بیان کیا محمد کریمﷺ نے بیان کیا۔ کوئی راضی ہے تب بھی وہی شاندار ہے، ناراض ہے تب بھی وہی شاندار ہے کوئی ہمارے قریب ہو تب بھی وہی شاندار ہے۔ دور ہو تب بھی وہی شاندار ہے۔ دور ہوتا ہے ہو جا ئے۔
تیسرا نقطہ جو اللہ کی توفیق سے کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ کنبہ ایک ادارہ ہے ایک یونٹ ہے ایک اکائی ہے اور دنیا میں کوئی ادارہ ایسا ہے کہ سارے برابر ہوں؟ چوہدری صاحب آپ اتنے بڑے سروسیں کر کے آئے ہیں کوئی ہے ادارہ ایف بی آر میں سارے برابر ہیں؟ مساوات مساوات ایسا جھوٹ ہے جس کا دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے۔ سکول میں ہیڈ ماسٹر بھی ہے اور پیئن بھی ہے۔ سینئر ٹیچر بھی ہے، جونئر بھی ہے۔ ہائی کلاسز کا بھی ہے، مڈل کلاسز کا بھی ہے۔ سارے برابر ہیں؟ کالج میں، یونیورسٹی میں انتظامیہ میں سیکریٹریٹ میں۔ چیمہ صاحب سارے ایک جیسے ہیں؟ فوج میں، مسجد میں امامت میں، سارے امام ہیں؟
یہ مساوات ایسا شیطانی دھوکہ ہے جس کا وجود نہیں۔ ہاں اخلاق کی بربادی کے لیے کنبوں کی تباہی کے لیے یہ انتہائی خطرناک بارود ہے جس کو رکھا گیا ہے اور اللہ ہدایت دے ان بدبختوں کو جو امت کو یہ شیطانی سبق پڑھارہے ہیں۔ ایسی چیز جس کا وجود ہی نہیں۔ نہ تھا، نہ ہے، نہ ہوگا۔ اور اس کی وجہ سے کنبوں کے کنبے برباد ہو گئے۔ ہمارےقرآن پاک میں، ہمارے دین میں کوئی مساوات نہیں۔ ہر ایک کواُسکی حیثیت کے مقام دیا گیا۔
ہاں ظلم کا نقطہ بھی نہیں۔ نہ شریعت اس کو گوارہ کرتی ہے نہ اجازت دیتی ہے۔ گذشتہ درس میں خواتین کے حقوق کے بارے میں ہم نے کتنا سنا کہ بعض ساتھی ہمارے پریشان ہو گئے اور سارا درس پریشان ہی رہے۔ اور اس کے بعد بھی ابھی تک ان کی پریشانی باقی ہے۔ ہوتے رہیں پریشان اور اگر آج کے درس پر کوئی پریشان ہے تو ہوتا رہے۔ اللہ کرے دین سے رائی برا بر نہ آگے جائیں نہ پیچھے ۔ اللہ یہ ایمان دے اسی پر زندہ رکھے اسی پر موت آئے۔
تو عرضی کر رہا ہوں دنیا کا کوئی ادارہ ایسا نہیں اس کے تمام شرکا یکساں ہوں۔ حاکم، محکوم۔ راعی، رعیت۔ چیف اور اس کے نیچے، پی ایم اور اس کے نیچے۔ یہاں بھی رب کریم کی طرف سے تنظیم کان کی گئی اور اس کنبے کے ادارہ کا جو سر براہ ہے وہ مرد ہے۔ دوٹوک اندازمیں۔ جس کو تکلیف ہے، ہو۔ جس نے دین سے پھرنا ہے پھر جائے۔ اللہ کو کسی کی پرواہ نہیں۔ اللہ کسی کے محتاج نہیں۔ ہر مخلوق میں سے ہر ایک ان کا محتاج ہے۔
پانچواں پارہ سورہ النساء آیت شریفہ چوتیس میں اللہ کریم نے فرمایا:
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَيۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ؕ وَالّٰتِىۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَهُنَّ فَعِظُوۡهُنَّ وَاهۡجُرُوۡهُنَّ فِى الۡمَضَاجِعِ وَاضۡرِبُوۡهُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَكُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَيۡهِنَّ سَبِيۡلًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيۡرًا
مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور اُنہیں مارو پھر اگر وہ تمہارے حکم میں آجائیں تو اُن پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو بے شک اللہ بلند بڑا ہے
النساء:۳۴
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ۔ مرد عورتوں پر نگہبان ہیں۔ کیوں؟ اللہ نے دو اسباب بیان کیے۔ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ اس وجہ سے اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔
کیا مطلب؟ اللہ تعالیٰ نے مرد کو ایسی چیزیں عطا کی ہیں جو عورت کو نہیں۔ exceptional case (غیر معمولی معاملات) تھے، ہیں، ہوتے رہیں گے۔ بعض گھروں میں مرد بالکل مینڈک۔ اور بیچاری خاتون پر بوجھ ہے۔ یہ سلسلہ اصل کیا ہے؟ بھاری ذمہ داریاں کس کے ذمہ ہیں؟ مزدوری کرے، محنت کرے بھاگے۔ خطرات کا مقابلہ کرے۔ جہاد۔ جو جو چیز ہے زیادہ بوجھل۔ وہ مرد کی ہیں۔
خواتین کی ذمہ داریاں بھی بہت ہیں۔ بچے جنم دینا کونسی چھوٹی ذمہ داری ہے۔ لیکن اللہ نے ان کو ویسی خاصیتیں عطا کی ہیں۔ مردوں کی جو ذمہ داریاں رکھیں اس کے مطابق صلاحیتیں ہیں۔ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ کہ اللہ نے کچھ کو کچھ پہ فضیلت دی۔ اور دوسرا سبق بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔ یہاں یہ بات سمجھ لیجیئے۔ اللہ ہماری بیٹیوں بہنوں کو اور امت کی عورتوں کو ہدایت دے۔ انہوں نے شریعت کو توڑا اور اپنے آپکو عذاب میں مبتلا کیا۔
مردوں کو جو نگہبانی کا حق دیا گیا۔ اللہ کریم نے اس حق کے دینے کے دو سبب بیان کیے۔ پہلی بات اللہ پاک نے مردوں کی ساخت بنائی ایسی کہ وہ خواتین میں جدا اور ان میں زیادہ مشقت، محنت، بھاگ دوڑ۔ اور اگر کوئی ایسے نہیں تو یہ exceptional case (غیر معمولی معاملہ) ہے عام۔۔ کوئی نہیں۔ دوسری بات کہ مردوں کی ذمہ داری ہے کہ عورتوں پر خرچ کریں۔
جوبات میں چاہتا ہوں کہ نوٹ کی جائے اور اس کو عام کیا جائے وہ یہ ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنی جانوں پر زیادتی کر رہی ہیں۔ وہ بوجھ اٹھا رہی ہیں جو بوجھ اللہ نے ان پر نہیں ڈالا۔ اور اتنی زیادہ مشقت میں ہیں کہ ان کی حالت اللہ ہی جانے۔
وہ بی بی جو کمائی میں جُت جاتی ہے۔ گھر کی ذمہ داری سے اسے چھٹی مل جاتی ہے؟ بچے جنم دینے میں خاوند اس کا پارٹنر شپ کرتا ہے اس کے ساتھ ؟ کوئی ہے خاوند بچے جنم دینےوالا؟ بچوں کا ناز نخرہ باپ کیا جانے؟ باپ کو چھٹی کا ایک دن ہوتا ہے یا دو دن ہوتے ہیں، پٹائی ہو جاتی ہے۔ اور وہ بیچاری کتنے صبر سے۔۔ اسکی ذمہ داری کوئی معمولی تو نہیں۔ بچوں کی تربیت کرے۔
اب جب وہاں سے نکلی جاب سے تو سارا صبح کی تیاری کا بند و بست کس نے کیا؟ اور وہ بیٹھا چینل دیکھ رہا ہے، نیوز پیپر دیکھ رہا ہے یا ٹانگیں لمبی کر کے مرا پڑا ہے۔ صبح واک کرنے والے مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ سردی ہے شدت کی، بارش ہے۔ بچے کے ساتھ کون کھڑا ہے بس پر بٹھانے کیلیئے؟ ماں کھڑی ہے۔ عورت کے گھر کے کام کون کرتا ہے؟ گھر میں تیاری خاوند صاحب نے کر کے دی ہے؟ بچے کے کپڑے۔۔ جو بھی ہے۔ یہ اُلٹ نظام خواتین کی آزادی کے نام پر ہے۔ مساوات کے نام پر سارے شیطانی حیلے اور بہانے ہیں عورتوں پر ظلم کرنے کے لئے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ اس کو نام دیا گیا حقوق نسواں کی حفاظت، ہیومن رائٹس۔ ہم اس کےلئے فائٹ (fight) کر رہے ہیں۔ خاک فائٹ کر رہے ہیں کہ ان کا کچومر نکال رہے ہیں۔
بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡم مرد کونگہبان بنایا، اس کو حاکم بنایا۔ دو کام۔۔ اور دوسرا کیا ہے۔۔ کہ وہ مال خرچ کرے۔ عورت ایک پائی کی ذمہ دار نہیں۔
اسی بات کو مزید واضح کرنے کیلئے صحیح بخاری کی ایک حدیث کا خلاصہ سنیئے۔ سیدنا ابن مسعود ؓ غریب آدمی تھے۔ ان کی بیگم زینب مالدار تھیں۔ زینبؓ نے چاہا کہ صدقہ کروں۔ ابن مسعودؓ نے کہا کہ صدقہ کرنا ہے تو مجھے کرو میں غریب آدمی ہوں۔ باہر کیا کرنا ہے۔ زینبؓ نے کہا اگر میرا صدقہ تجھے دینا جائز ہے تو مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔ جاؤ جا کے پوچھ کے آؤ نبی کریمﷺ سے۔ انہوں نے کہا میں نے نہیں جانا۔ تو ہی جا۔ بی بی زینبؓ نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئیں۔ بلالؓ باہر تھے۔ ایک اور خاتون جو انصار سے تھی۔ وہ بھی آئی تھی۔ اس کا نام بھی زینبؓ ہی تھا۔ بات چیت ہوئی پتہ چلا جو سوال ابن مسعودؓ کی بیگم کا ہے وہی سوال اس انصاری خاتون کا ہے۔ دونوں نے کہا بلالؓ کو جاؤ پوچھ کے آؤ ہمارا نام نہیں بتانا۔ نبی کریمﷺ سے سوال کیا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کون ہے۔ عرض کیا کہ دو زینبیں ہیں۔ فرمایا کونسی زینب۔ بلالؓ نے عرض کیا کہ ایک تو ابن مسعودؓ کی بیوی اور ایک انصاری۔ جواب دینے سے پہلے آپ حالات اپنے صحابہ کے کافی حد تک جانتے تھے۔ تو چاہا کہ حالات کی آگاہی کی بنیاد پہ ٹھیک ٹھیک فتویٰ دیا جائے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ بالکل یہ اپنے خاوندوں کو صدقہ دے سکتی ہیں۔
اب اگر بیوی بال بچے کی خدمت کی ذمہ دار ہوتی (خدمت سے مراد معاشی خدمت) تو کیا وہ صدقہ دیتی؟ پکی بات۔۔ خاتون ذمہ دار نہیں مرد ذمہ دار ہے۔ اور اسی مناسبت سے جہاں تک یہ ٹوٹی پھوٹی عاجزانہ آواز پہنچے یہ پہنچانا چاہوں گا بیٹیاں اپنی جانوں پہ رحم کریں۔ اس بوجھ کو نہ اٹھائیں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر نہیں ڈالا۔ ان کا ذمہ دار جب کوئی نہ ہو تو باپ۔ اور جب باپ نہ ہو خاوند۔ اور اگر کوئی استثنائی صورت ہو اس کا معاملہ جدا ہے۔ اگر کسی کا باپ بھی نہیں، خاوند بھی نہیں۔ وہ exceptional case ہے۔ یہ general rule ہے۔
اب جو یہ تیسرا نقطہ۔۔ خاوند کو جو حق ہے نگہبانی کا، حکمرانی کا۔۔ اسکے تقاضے اللہ جانے کتنے ہیں۔ تین میں عرض کرنا چاہوں گا اختصار سے۔۔ نمبر ایک: کنبہ اللہ کریم نے مقاصد کیلئے بنایا کہ اس کنبہ کی برکت سے معاشرے میں خرابی کے دروازے بند ہوں۔ خیر کے دروازے کھلیں۔ اب خیر کے دروزے کیسے کھلیں گے؟ دونوں میں اِفہام و تفہیم (understanding) ہو۔ دعوت دی جائے جواب آئے اگر سرکشی، طغیانی، نا فرمانی۔ تو کنبے کا مقصد رہے گا باقی؟ ہمارا دین۔۔ حقیقی دین۔ فرضی کھوکھلی باتیں ہمارے دین میں نہیں۔ جس کو پسند ہیں ٹھیک ہے نہیں تو جائے۔ حقیقی دین ہے۔ کیا کہتے ہیں ground facts کو سامنے رکھنا۔
امام بخاری اور امام مسلم نے سیدنا ابو ھریرہؓ سے روایت کیا نبی کریمﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے۔ اور وہ انکار کرے تو صبح تک فرشتے اس پہ لعنت کرتے ہیں۔ اب اس میں کتنی خیر ہے تفسیر بیان نہیں کر سکتی لیکن اشارہ شاید کافی ہے۔ اب یہ یونٹ جو بنا ہے۔ اگر یہ نہیں تو مقصد باقی رہے گا؟ جب حلال کے دروازے بند ہونگے تو کونسے کھلیں گے؟ اللہ کریم نے جو نظام بنایا ہے اس کو چلانا ہے۔ اگر حلال میں نہ چلے گا تو کہاں چلے گا؟ وہیں چلے گا جہاں چل رہا ہے۔ کہاں؟؟ جو دنیا نے اپنے مائی باپ جھوٹے بنائے ہیں۔ نظام تو چلنا ہے یا ٹھیک یا گندا۔ اللہ کریم نے اپنی شریعت میں اس پاکیزگی کیلیئے کتنی سخت بات کہی ۔ نہ آئے بیشک صبح تک پھر اسے لعنت ہے۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے ہاں اگراس سے پہلے پلٹ آئے تو فرشتوں کی لعنت تھم جائے وگرنہ میں بات کی تشریح میں کہتا ہوں خواہ وہ تسبیح نماز کا بہانہ بنائے، تلاوت کا بنائے، تبلیغ کا بنائے۔ نہ۔۔ شریعت نہیں مانتی۔ فرض نماز، اس میں کوئی کمپرومائز نہیں۔ فرضی روزہ، اس میں کوئی کمپرومائز نہیں۔ باقی معاملات خاتون کی مرضی پہ چھوڑنا۔۔؟ اللہ کریم نے نہیں چھوڑا۔ ہمارا ایمان ہے رب کریم خواتین کے جتنے ہمدرد ہیں ان کی مائیں بھی نہیں، کوئی بھی نہیں۔ اور نبی کریمﷺ خواتین کے جتنے ہمدرد ہیں۔ کائنات میں اللہ کے بعد کوئی نہیں۔ جو انہوں نے بیان کیا وہ ہی سراپائے خیر ہے۔
دوسری بات۔۔ آدمی کی نگرانی کو اجاگر کرنے والی اور اس کی ایک عملی صورت۔ کوئی خاتون (اللہ جانے کچھ پڑھی لکھی بیٹیاں ناراض ہوں یا راضی۔ جو بھی ہوں ہوتی رہیں۔ نہ پچھلے لوگوں کی ناراضی کا کوئی اثر ہوا نہ آج کی ناراضی کا انشاءاللہ کوئی اثر ہو گا۔) مرد کی نگہبانی اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ خاتون کیلئے اپنے گھر سے باہر جانا اپنے شوہر کی اجازت کےبغیر جائز نہیں۔ حتیٰ کہ نماز کیلیئے بھی جانا ہے۔ خاوند پابند ہے کہ اگر وہ شریعت کے آداب کی پابندی کرے، پابند ہے اس کو اجازت دے۔ لیکن بغیر اجازت کے نہیں جانا۔
امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا جب تم میں سے کسی کی بی بی مسجد کیلیئے اجازت طلب کرے تو اس کو نہ روکے۔ نوٹ فرمانا یہ نہیں کہا کہ وہ چلی جائے۔ دونوں باتوں میں کچھ فرق ہے کہ نہیں! یہ نہیں کہا چلی جائے۔ یہ کہا کہ مرد اس کو نہ روکے۔ جانا اس کی اجازت سے ہے لیکن مرد کو اجازت دینے کا پابند کیا۔ اور اگر مسجد کے بارے میں یہ ہے کہ اجازت لے کر جانا ہے۔ تو باقی جتنی ہیں آنیاں جانیاں۔ وہ باقی رہیں گی؟
اللہ کیلیئے اپنی جانوں پر، اپنی بیٹیوں پر رحم کریں۔ آزادی کے نام پر گھروں میں کتنی بربادیاں آ چکی ہیں اور آ رہی ہیں۔ اورآئے دن پہلے سے تیز۔ جس گھر میں پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ لوگ میرے سامنے ہیں کاروباری۔ جس گھر میں آنے جانے کیلیئے قواعد و ضوابط نہیں وہ گھر چل سکتا ہے؟ کوئی دفتر کہ جب چاہے ملازم آجائے جب چاہے چلا جائے۔ اس دفتر کی پروڈکشن کیا ہوگی! کوئی ادارہ دنیا کا۔۔ جہاں آنیاں جانیاں بغیر قواعد کے ہوں۔۔ باقی رہ سکتا ہے؟ گھر کا ادارہ اتنا مقدس ادارہ اور اتنا عظیم ادارہ۔ اور اس میں آنی جانیاں بغیر rules & regulations کے کس طرح چل سکتا ہے۔
شوہر کے نگہبانی کے اختیارات کی حدود
اور یہ بات اختصار سے نوٹ کر لی جائے کہ مرد کے اجازت دینے یا نہ دینے کے بارے میں جو اس کا اختیار ہے وہ قیود و ضوابط کے بغیر نہیں ہے۔ خاتون نے اپنی اماں کی زیارت کیلیئے جانا چاہے۔ اور کہے نہیں جانے دینا۔ شریعت اس کو نہیں مانتی۔ اس کی بہن سگی بیمار ہے۔ جانا چاہے۔ کہے نہیں جانے دینا۔ یہ نہیں ہے۔
ہاں۔۔ اگر خاتون چاہتی ہے کہ ہر شام کپڑے پہنوں اور مارکیٹ میں چکر لگا کے آؤں۔ مرد پابند ہے کہ اس کو روکے۔ آنیاں جانیاں۔۔ عام قاعدہ ہے مرد کی اجازت سے!! لیکن مرد کی اجازت دینا نہ دینا اس کو مطلق العنان نہیں بنایا گیا۔ کہ وہ جو چاہے سو کرے۔ نہ۔۔ اختیارات کے استعمال میں اس پہ بھی پابندی ہے۔
مرد کے نگہبانی کے حق کے حوالے سے ایک اور بات۔ اور تیسری بات کروں۔ کہ کوئی خاتون نفلی روزہ خاوند کی اجازت کے بغیر نہ رکھے۔ کنبہ اللہ کریم نے عظیم مقاصد کیلیئے بنایا ہے۔ اب تقاضے اور ہیں۔ اوروہ نفلی روزے چھڑانا چاہتی ہے۔ نہ۔
امام ابو داؤد اور امام ابن ماجہ نے نے سیدنا ابو سعیدؓ سے روایت کیا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا خاتون روزہ خاوند کی اجازت کے بغیر نہ رکھے۔ یعنی نفلی روزہ۔ اور جب کنبہ ایسا ہو ساری باتیں منظم، مرتب، افہام و تفہیم سے۔ تو پھر کنبے میں بربادیاں آئیں گی؟ اور جہاں آنیاں جانیاں ہوں بغیر اصول و ضوابط وہاں خیر کدھر سے آئے گی؟
اور اگر کوئی مرد بھی اپنے آپ کو شریعت کے دیئے ہوئے حق سے بھی اوپر لے جائے۔ پھر بھی خیر نہیں۔ یہاں ایک ضروری تنبیہہ ہے۔ آپ اس کو وارننگ کہیں۔ اچھی طرح سن لیجیئے۔ اور اس کو پہلے کے سارے پیغام سے زیادہ عام کریں۔ خاوند کا جتنا حق ہے حکمرانیوں کا، نگہبانیوں کا، آنی جانیوں کو کنٹرول کرنے کا۔ سارے کا سارا پابند ہے شریعت کی حدود کا۔ جو خاوند شریعت کی حدود کو تجاوز کرے اس کے حکم کی کوئی حیثیت نہیں۔ اچھی طرح سن لیجیئے۔ جہاں پہلا انا حق کا کر گھروں میں بیان کرنا ہے۔ یہ بھی بتلائیں۔
امام بخاری اور امام مسلم نے اماں عائشہؓ سے روایت کیا۔ انصارکی ایک عورت نبی پاکﷺ کے پاس حاضر ہوئی۔ عرض کیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح کیا۔ اور بیٹی کے سر سے بال گر گئے۔ اب میاں صاحب نے خاوند نے کیا چاہا ہے۔ اس نے حکم دیا ہے۔ ماں کہہ رہی ہے کہ میں اس کے بالوں کو لگواؤں۔ جعلی بال، وِگ (wig)۔ اس کو بال لگوا دوں۔ نبی پاکﷺ نے کیا فرمایا؟ اب دیکھیئے کتاب و سنت میں مرد کے حقوق کے بارے میں سیلاب ہے۔ لیکن سارے سیلاب کو ایک سرکل (circle) میں بند کر دیا۔ فرمایا نہیں۔
اور یہ گھروں میں مصیبتیں چل ہیں رہی ہیں۔ لوگ جھیل رہے ہیں۔ بہت کچھ ہے۔ آپ جتنا تو نہیں۔ لیکن کچھ نہ کچھ ہے دل دماغ میں لیکن زبان پہ لاتے شرم آتی ہے۔ اور کچھ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ شاید بات کو پہنچا سکوں۔ گندے شوہر۔۔ کن کو دیکھتے ہیں؟ ایکٹریس، اداکاروں کو۔ پاک صاف عورت ہوتی ہے وہ؟ رابعہ بصری کی نسل سے ہیں؟ ان کو دیکھتے ہیں۔ اور کیا چاہتے ہیں یہ بد بخت کہ ان کی پاکباز بیوی بھی وہی کچھ کر کے دکھائے۔
یہ عقل کا اندھا یہ نہیں سوچتا کہ جو اُس قسم کی حرکات والی ہیں وہ گھروں والی نہیں ہیں۔ وہ بچے جنم دینے والی نہیں ہیں۔ اب میں کیا کہوں۔ آپ زیادہ جانتے ہیں۔ اب یہ اس کاغیر شرعی طرزعمل۔۔ اس کا لباس گندا، اس کے بال گندے، اس کی حرکات شرم و حیا کو دفن کرنے والی۔ بعض نالائق، بد بخت شوہر کیا چاہتے ہیں؟ کہ میری بیوی بھی ایسے ہی کرے۔ ظالم! جب وہ یہ کرے گی تو تیری بیوی نہیں ہو گی۔ وہ ہو گی جس کو تو دیکھ رہا ہے۔ بات واضح ہو رہی ہے کہ نہیں؟
عجیب بات ہے۔ کیا کچھ چاہتا ہے!! کہ اس آشنا بھی کتنے ہو جائیں! اس کا رابطہ بھی ہر روز نئے نئے لوگوں سے ہوتا رہے! چاہتا ہے؟ ایک ہی چیز کا ایک پہلو لینا چاہتے ہیں دوسرا چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اور اسی بنیاد پر پاکباز شریف زادیاں ان پر ظلم کرتے ہیں۔ ساتھ کہتے ہیں دیکھو جی یہ خاوند کی نافرمان ہے۔ خاک ہے تیری عقل پر۔ خاک ہے تیری عقل پر۔ اندھاہے تو عقل کا۔
آئندہ یاد کر لیجیئے۔ عورت تابعداری کرے لیکن شریعت کی حدود میں۔ خاوند نے حکم دیا ساس صاحبہ کو۔ آپﷺ نے فرمایا۔ نہ۔ یقیناً وہ عورتیں جو بالوں کو لگاتی ہیں ان پر لعنت کی گئی۔
گفتگو کا چوتھا نقطہ۔۔ خاتون گھر کی نگہبان ہے۔ اولاد کی نگہبان ہوتی ہے، خاوند کی امانتوں کی نگہبان ہوتی ہے۔ اور کل روز قیامت اس سے بازپرس ہو گی۔ اور اس بارے احادیث شریفہ موجود ہیں۔
پانچویں بات۔ خاتون شکوہ کو اپناشعار، اپنی عادت نہ بنائے۔ اگر ایک اسی بات کو بیٹیاں پکڑ لیں۔ تو گھر کا ماحول کا خوشگوار ہو جائے کہ نہ ہو جائے؟ خاوند آدھا آدھا بھی ہو۔ جب شکر سنے گا اس کی خیر میں اضافہ ہو گا یا کمی ہو گی؟ او اگر اچھا بھلا ہو۔ کیڑے نکالے جائیں، شکوہ کیا جائے۔ تو وہ پہلے سے اچھا ہو گا یا برا ہو گا؟ نبی کریمﷺ نے اس بارے میں بیت تلقین کی کہ خواتین خاوند کا شکرکریں۔
باقی نقاط کو چھوڑتے ہوئے دو منٹ میں ایک حدیث سماعت فرما لیجیئے۔ جس میں خواتین اور مرد، خاوند اور بیوی دونوں کی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔ حضرات آئمہ ابو داؤد، حکم، ضیاء المقدسی۔ تین محدثین نے اس حدیث کو روایت کیا۔ سیدنا ابن عباسؓ نے اسے روایت کیا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں دنیا کے بہترین خزانے کی خبر نہ دوں؟ فرمایا ألْمَرْأۃُ الصَّالِحَۃُ نیک بی بی دنیا کا بیترین خزانہ ہے۔ بد بخت بکتے ہیں اسلام میں خواتین کی کوئے حیثیت نہیں۔ ایک یہ حدیث ان کو ہوش دلوانے کیلیئے کافی ہے۔ دنیا کی کوئی چیز اتنی قیمتی نہیں جتنی نیک بی بی قیمتی ہے۔
لیکن بیٹیاں بھی سن لیں ان کا دماغی توازن بدل نہ جائے۔ نیک بی بی اس کی تین خوبیاں بیان کی ہیں۔ نمبر ایک: خاوند دیکھے تو اس کو خوش کردے۔ اور اس میں بہت کچھ آ جاتا ہے۔ اب میں اسی پر رکوں گا۔ خاوند دیکھے تو خوش کر دے، نمبر دو: خاوند حکم دے تو اس کو مانے۔ اور یہ حکم کب مانے جب وہ شریعت کی حدود میں ہو۔ نمبر تین جب خاوند موجود نہ ہو، اس کی امانتوں کی حفاظت کرے۔ کتنی خوبصورت حدیث ہے۔ دونوں کی حیثیت، قدروقیمت، اور شان وعظمت کو اجاگرکر دیا۔ اسی حدیث پر گفتگوکو روکتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کہنے سننے کی غلطی کو معاف فرمائے۔ اور جو ٹھیک بات انہی کی توفیق سے کی گئی۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔ کہنے سننے والوں کو اس کا فائدہ نیا وآخرت میں نصیب فرمائے۔ اللہ کریم ہماری
کیا مطلب؟ اللہ تعالیٰ نے مرد کو ایسی چیزیں عطا کی ہیں جو عورت کو نہیں۔ exceptional case (غیر معمولی معاملات) تھے، ہیں، ہوتے رہیں گے۔ بعض گھروں میں مرد بالکل مینڈک۔ اور بیچاری خاتون پر بوجھ ہے۔ یہ سلسلہ اصل کیا ہے؟ بھاری ذمہ داریاں کس کے ذمہ ہیں؟ مزدوری کرے، محنت کرے بھاگے۔ خطرات کا مقابلہ کرے۔ جہاد۔ جو جو چیز ہے زیادہ بوجھل۔ وہ مرد کی ہیں۔
خواتین کی ذمہ داریاں بھی بہت ہیں۔ بچے جنم دینا کونسی چھوٹی ذمہ داری ہے۔ لیکن اللہ نے ان کو ویسی خاصیتیں عطا کی ہیں۔ مردوں کی جو ذمہ داریاں رکھیں اس کے مطابق صلاحیتیں ہیں۔ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ کہ اللہ نے کچھ کو کچھ پہ فضیلت دی۔ اور دوسرا سبق بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔ یہاں یہ بات سمجھ لیجیئے۔ اللہ ہماری بیٹیوں بہنوں کو اور امت کی عورتوں کو ہدایت دے۔ انہوں نے شریعت کو توڑا اور اپنے آپکو عذاب میں مبتلا کیا۔
مردوں کو جو نگہبانی کا حق دیا گیا۔ اللہ کریم نے اس حق کے دینے کے دو سبب بیان کیے۔ پہلی بات اللہ پاک نے مردوں کی ساخت بنائی ایسی کہ وہ خواتین میں جدا اور ان میں زیادہ مشقت، محنت، بھاگ دوڑ۔ اور اگر کوئی ایسے نہیں تو یہ exceptional case (غیر معمولی معاملہ) ہے عام۔۔ کوئی نہیں۔ دوسری بات کہ مردوں کی ذمہ داری ہے کہ عورتوں پر خرچ کریں۔
جوبات میں چاہتا ہوں کہ نوٹ کی جائے اور اس کو عام کیا جائے وہ یہ ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنی جانوں پر زیادتی کر رہی ہیں۔ وہ بوجھ اٹھا رہی ہیں جو بوجھ اللہ نے ان پر نہیں ڈالا۔ اور اتنی زیادہ مشقت میں ہیں کہ ان کی حالت اللہ ہی جانے۔
وہ بی بی جو کمائی میں جُت جاتی ہے۔ گھر کی ذمہ داری سے اسے چھٹی مل جاتی ہے؟ بچے جنم دینے میں خاوند اس کا پارٹنر شپ کرتا ہے اس کے ساتھ ؟ کوئی ہے خاوند بچے جنم دینےوالا؟ بچوں کا ناز نخرہ باپ کیا جانے؟ باپ کو چھٹی کا ایک دن ہوتا ہے یا دو دن ہوتے ہیں، پٹائی ہو جاتی ہے۔ اور وہ بیچاری کتنے صبر سے۔۔ اسکی ذمہ داری کوئی معمولی تو نہیں۔ بچوں کی تربیت کرے۔
اب جب وہاں سے نکلی جاب سے تو سارا صبح کی تیاری کا بند و بنت کس نے کیا؟ اور وہ بیٹھا چینل دیکھ رہا ہے، نیوز پیپر دیکھ رہا ہے یا ٹانگیں لمبی کر کے مرا پڑا ہے۔ صبح واک کرنے والے مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ سردی ہے شدت کی، بارش ہے۔ بچے کے ساتھ کون کھڑا ہے بس پر بٹھانے کیلیئے؟ ماں کھڑی ہے۔ عورت کے گھر کے کام کون کرتا ہے؟ گھر میں تیاری خاوند صاحب نے کر کے دی ہے؟ بچے کے کپڑے۔۔ جو بھی ہے۔ یہ اُلٹ نظام خواتین کی آزادی کے نام پر ہے۔ مساوات کے نام پر سارے شیطانی حیلے اور بہانے ہیں عورتوں پر ظلم کرنے کے لئے۔ لیکن مصیبت یہہے کہ اس کو نام دیا گیا حقوق نسواں کی حفاظت، ہیومن رائٹس۔ ہم اس کےلئے فائٹ (fight) کر رہے ہیں۔ خاک فائٹ کر رہے ہیں کہ ان کا کچومر نکال رہے ہیں۔
بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡم مرد کونگہبان بنایا، اس کو حاکم بنایا۔ دو کام۔۔ اور دوسرا کیا ہے۔۔ کہ وہ مال خرچ کرے۔ عورت ایک پائی کی ذمہ دار نہیں۔
اسی بات کو مزید واضح کرنے کیلئے صحیح بخاری کی ایک حدیث کا خلاصہ سنیئے۔ سیدنا ابن مسعود ؓ غریب آدمی تھے۔ ان کی بیگم زینب مالدار تھیں۔ زینبؓ نے چاہا کہ صدقہ کروں۔ ابن مسعودؓ نے کہا کہ صدقہ کرنا ہے تو مجھے کرو میں غریب آدمی ہوں۔ باہر کیا کرنا ہے۔ زینبؓ نے کہا اگر میرا صدقہ تجھے دینا جائز ہے تو مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔ جاؤ جا کے پوچھ کے آؤ نبی کریمﷺ سے۔ انوں نے کہا میں نے نہیں جانا۔ تو ہی جا۔ بی بی زینبؓ نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئیں۔ بلالؓ باہر تھے۔ ایک اور خاتون جو انصار سے تھی۔ وہ بھی آئی تھی۔ اس کا نام بھی زینبؓ ہی تھا۔ بات چیت ہوئی پتہ چلا جو سوال ابن مسعودؓ کی بیگم کا ہے وہی سوال اس انصاری خاتون کا ہے۔ دونوں نے کہا بلالؓ کو جاؤ پوچھ کے آؤ ہمارا نام نہیں بتانا۔ نبی کریمﷺ سے سوال کیا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کون ہے۔ عرض کیا کہ دو زینبیں ہیں۔ فرمایا کونسی زینب۔ بلالؓ نے عرض کیا کہ ایک تو ابن مسعودؓ کی بیوی اور ایک انصاری۔ جواب دینے سے پہلے آپ حالات اپنے صحابہ کے کافی حد تک جانتے تھے۔ تو چاہا کہ حالات کی آگاہی کی بنیاد پہ ٹھیک ٹھیک فتویٰ دیا۔ جائے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ بالکل یہ اپنے خاوندوں کو صدقہ دے سکتی ہیں۔
اب اگر بیوی بال بچے کی خدمت کی ذمہ دار ہوتی (خدمت سے مراد معاشی خدمت) تو کیا وہ صدقہ دیتی؟ پکی بات۔۔ خاتون ذمہ دار نہیں مرد ذمہ دار ہے۔ اور اسی مناسبت سے جہاں تک یہ ٹوٹی پھوٹی عاجزانہ آواز پہنچے یہ پہنچانا چاہوں گا بیٹیاں اپنی جانوں پہ رحم کریں۔ اس بوجھ کو نہ اٹھائیں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر نہیں ڈالا۔ ان کا ذمہ دار جب کوئی نہ ہو تو باپ۔ اور جب باپ نہ ہو خاوند۔ اور اگر کوئی استثنائی صورت ہو اس کا معاملہ جدا ہے۔ اگر کسی کا باپ بھی نہیں، خاوند بھی نہیں۔ وہ exceptional case ہے۔ تو general rule ہے۔
اب جو یہ تیسرا نقطہ۔۔ خاوند کو جو حق ہے نگہبانی کا، حکمرانی کا اسکے تقاضے۔ اللہ جانے کتنے ہیں۔ تین میں عرض کرنا چاہوں گا اختصار سے۔ نمبر ایک: کنبہ اللہ کریم نے مقاصد کیلئے بنایا کہ اس کنبہ کی برکت سے معاشرے میں خرابی کے دروازے بند ہوں۔ خیر کے دروازے کھلیں۔ اب خیر کے دروزے کیسے کھلیں گے؟ دونوں میں اِفہام و تفہیم (understanding) ہو۔ دعوت دی جائے جواب آئے اگر سرکشی، طغیانی، نا فرمانی۔ تو کنبے کا مقصد رہے گا باقی؟ ہمارا دین۔۔ حقیقی دین۔ فرضی کھوکھلی باتیں ہمارے دین میں نہیں۔ جس کو پسند ہیں ٹھیک ہے نہیں تو جائے۔ حقیقی دین ہے۔ کیا کہتے ہیں ground facts کو سامنے رکھنا۔
امام بخاری اور امام مسلم نے سیدنا ابو ھریرہؓ سے روایت کیا نبی کریمﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے۔ اور وہ انکار کرے تو صبح تک فرشتے اس پہ لعنت کرتے ہیں۔ اب اس میں کتنی خیر ہے تفسیر بیان نہیں کر سکتی لیکن اشارہ شاید کافی ہے۔ اب یہ یونٹ جو بنا ہے۔ اگر یہ نہیں تو مقصد باقی رہے گا؟ جب حلال کے دروازے بند ہونگے تو کونسے کھلیں گے؟ اللہ کریم نے جو نظام بنایا ہے اس کو چلانا ہے۔ اگر حلال میں نہ چلے گا تو کہاں چلے گا؟ وہیں چلے گا جہاں چل رہا ہے۔ کہاں؟؟ جو دنیا نے اپنے مائی باپ جھوٹے بنائے ہیں۔ نظام تو چلنا ہے یا ٹھیک یا گندا۔ اللہ کریم نے اپنی شریعت میں اس پاکیزگی کیلیئے کتنی سخت بات کہی ۔ نہ آئے بیشک صبح تک پھر اسے لعنت ہے۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے ہاں اگراس سے پہلے پلٹ آئے تو فرشتوں کی لعنت تھم جائے وگرنہ میں بات کی تشریح میں کہتا ہوں خواہ وہ تسبیح نماز کا بہانہ بنائے، تلاوت کا بنائے، تبلیغ کا بنائے۔ نہ۔۔ شریعت نہیں مانتی۔ فرض نماز، اس میں کوئی کمپرومائز نہیں۔ فرضی روزہ، اس میں کوئی کمپرومائز نہیں۔ باقی معاملات خاتون کی مرضی پہ چھوڑنا۔۔؟ اللہ کریم نے نہیں چھوڑا۔ ہمارا ایمان ہے رب کریم خواتین کے جتنے ہمدرد ہیں ان کی مائیں بھی نہیں، کوئی بھی نہیں۔ اور نبی کریمﷺ خواتین کے جتنے ہمدرد ہیں۔ کائنات میں اللہ کے بعد کوئی نہیں۔ جو انہوں نے بیان کیا وہ ہی سراپائے خیر ہے۔
دوسری بات۔۔ آدمی کی نگرانی کو اجاگر کرنے والی اور اس کی ایک عملی صورت۔ کوئی خاتون (اللہ جانے کچھ پڑھی لکھی بیٹیاں ناراض ہوں یا راضی۔ جو بھی ہوں ہوتی رہیں۔ نہ پچھلے لوگوں کی ناراضی کا کوئی اثر ہوا نہ آج کی ناراضی کا انشاءاللہ کوئی اثر ہو گا۔) مرد کی نگہبانی اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ خاتون کیلئے اپنے گھر سے باہر جانا اپنے شوہر کی اجازت کےبغیر جائز نہیں۔ حتیٰ کہ نماز کیلیئے بھی جانا ہے۔ خاوند پابند ہے کہ اگر وہ شریعت کے آداب کی پابندی کرے، پابند ہے اس کو اجازت دے۔ لیکن بغیر اجازت کے نہیں جانا۔
امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا جب تم میں سے کسی کی بی بی مسجد کیلیئے اجازت طلب کرے تو اس کو نہ روکے۔ نوٹ فرمانا یہ نہیں کہا کہ وہ چلی جائے۔ دونوں باتوں میں کچھ فرق ہے کہ نہیں! یہ نہیں کہا چلی جائے۔ یہ کہا کہ مرد اس کو نہ روکے۔ جانا اس کی اجازت سے ہے لیکن مرد کو اجازت دینے کا پابند کیا۔ اور اگر مسجد کے بارے میں یہ ہے کہ اجازت لے کر جانا ہے۔ تو باقی جتنی ہیں آنیاں جانیاں۔ وہ باقی رہیں گی؟
اللہ کیلیئے اپنی جانوں پر، اپنی بیٹیوں پر رحم کریں۔ آزادی کے نام پر گھروں میں کتنی بربادیاں آ چکی ہیں اور آ رہی ہیں۔ اورآئے دن پہلے سے تیز۔ جس گھر میں پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ لوگ میرے سامنے ہیں کاروباری۔ جس گھر میں آنے جانے کیلیئے قواعد و ضوابط نہیں وہ گھر چل سکتا ہے؟ کوئی دفتر کہ جب چاہے ملازم آجائے جب چاہے چلا جائے۔ اس دفتر کی پروڈکشن کیا ہوگی! کوئی ادارہ دنیا کا۔۔ جہاں آنیاں جانیاں بغیر قواعد کے ہوں۔۔ باقی رہ سکتا ہے؟ گھر کا ادارہ اتنا مقدس ادارہ اور اتنا عظیم ادارہ۔ اور اس میں آنی جانیاں بغیر rules & regulations کے کس طرح چل سکتا ہے۔
شوہر کے نگہبانی کے اختیارات کی حدود
اور یہ بات اختصار سے نوٹ کر لی جائے کہ مرد کے اجازت دینے یا نہ دینے کے بارے میں جو اس کا اختیار ہے وہ قیود و ضوابط کے بغیر نہیں ہے۔ خاتون نے اپنی اماں کی زیارت کیلیئے جانا چاہے۔ اور کہے نہیں جانے دینا۔ شریعت اس کو نہیں مانتی۔ اس کی بہن سگی بیمار ہے۔ جانا چاہے۔ کہے نہیں جانے دینا۔ یہ نہیں ہے۔
ہاں۔۔ اگر خاتون چاہتی ہے کہ ہر شام کپڑے پہنوں اور مارکیٹ میں چکر لگا کے آؤں۔ مرد پابند ہے کہ اس کو روکے۔ آنیاں جانیاں۔۔ عام قاعدہ ہے مرد کی اجازت سے!! لیکن مرد کی اجازت دینا نہ دینا اس کو مطلق العنان نہیں بنایا گیا۔ کہ وہ جو چاہے سو کرے۔ نہ۔۔ اختیارات کے استعمال میں اس پہ بھی پابندی ہے۔
مرد کے نگہبانی کے حق کے حوالے سے ایک اور بات۔ اور تیسری بات کروں۔ کہ کوئی خاتون نفلی روزہ خاوند کی اجازت کے بغیر نہ رکھے۔ کنبہ اللہ کریم نے عظیم مقاصد کیلیئے بنایا ہے۔ اب تقاضے اور ہیں۔ اوروہ نفلی روزے چھڑانا چاہتی ہے۔ نہ۔
امام ابو داؤد اور امام ابن ماجہ نے نے سیدنا ابو سعیدؓ سے روایت کیا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا خاتون روزہ خاوند کی اجازت کے بغیر نہ رکھے۔ یعنی نفلی روزہ۔ اور جب کنبہ ایسا ہو ساری باتیں منظم، مرتب، افہام و تفہیم سے۔ تو پھر کنبے میں بربادیاں آئیں گی؟ اور جہاں آنیاں جانیاں ہوں بغیر اصول و ضوابط وہاں خیر کدھر سے آئے گی؟
اور اگر کوئی مرد بھی اپنے آپ کو شریعت کے دیئے ہوئے حق سے بھی اوپر لے جائے۔ پھر بھی خیر نہیں۔ یہاں ایک ضروری تنبیہہ ہے۔ آپ اس کو وارننگ کہیں۔ اچھی طرح سن لیجیئے۔ اور اس کو پہلے کے سارے پیغام سے زیادہ عام کریں۔ خاوند کا جتنا حق ہے حکمرانیوں کا، نگہبانیوں کا، آنی جانیوں کو کنٹرول کرنے کا۔ سارے کا سارا پابند ہے شریعت کی حدود کا۔ جو خاوند شریعت کی حدود کو تجاوز کرے اس کے حکم کی کوئی حیثیت نہیں۔ اچھی طرح سن لیجیئے۔ جہاں پہلا انا حق کا کر گھروں میں بیان کرنا ہے۔ یہ بھی بتلائیں۔
امام بخاری اور امام مسلم نے اماں عائشہؓ سے روایت کیا۔ انصارکی ایک عورت نبی پاکﷺ کے پاس حاضر ہوئی۔ عرض کیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح کیا۔ اور بیٹی کے سر سے بال گر گئے۔ اب میاں صاحب نے خاوند نے کیا چاہا ہے۔ اس نے حکم دیا ہے۔ ماں کہہ رہی ہے کہ میں اس کے بالوں کو لگواؤں۔ جعلی بال، وِگ (wig)۔ اس کو بال لگوا دوں۔ نبی پاکﷺ نے کیا فرمایا؟ اب دیکھیئے کتاب و سنت میں مرد کے حقوق کے بارے میں سیلاب ہے۔ لیکن سارے سیلاب کو ایک سرکل (circle) میں بند کر دیا۔ فرمایا نہیں۔
اور یہ گھروں میں مصیبتیں چل ہیں رہی ہیں۔ لوگ جھیل رہے ہیں۔ بہت کچھ ہے۔ آپ جتنا تو نہیں۔ لیکن کچھ نہ کچھ ہے دل دماغ میں لیکن زبان پہ لاتے شرم آتی ہے۔ اور کچھ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ شاید بات کو پہنچا سکوں۔ گندے شوہر۔۔ کن کو دیکھتے ہیں؟ ایکٹریس، اداکاروں کو۔ پاک صاف عورت ہوتی ہے وہ؟ رابعہ بصری کی نسل سے ہیں؟ ان کو دیکھتے ہیں۔ اور کیا چاہتے ہیں یہ بد بخت کہ ان کی پاکباز بیوی بھی وہی کچھ کر کے دکھائے۔
یہ عقل کا اندھا یہ نہیں سوچتا کہ جو اُس قسم کی حرکات والی ہیں وہ گھروں والی نہیں ہیں۔ وہ بچے جنم دینے والی نہیں ہیں۔ اب میں کیا کہوں۔ آپ زیادہ جانتے ہیں۔ اب یہ اس کاغیر شرعی طرزعمل۔۔ اس کا لباس گندا، اس کے بال گندے، اس کی حرکات شرم و حیا کو دفن کرنے والی۔ بعض نالائق، بد بخت شوہر کیا چاہتے ہیں؟ کہ میری بیوی بھی ایسے ہی کرے۔ ظالم! جب وہ یہ کرے گی تو تیری بیوی نہیں ہو گی۔ وہ ہو گی جس کو تو دیکھ رہا ہے۔ بات واضح ہو رہی ہے کہ نہیں؟
عجیب بات ہے۔ کیا کچھ چاہتا ہے!! کہ اس آشنا بھی کتنے ہو جائیں! اس کا رابطہ بھی ہر روز نئے نئے لوگوں سے ہوتا رہے! چاہتا ہے؟ ایک ہی چیز کا ایک پہلو لینا چاہتے ہیں دوسرا چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اور اسی بنیاد پر پاکباز شریف زادیاں ان پر ظلم کرتے ہیں۔ ساتھ کہتے ہیں دیکھو جی یہ خاوند کی نافرمان ہے۔ خاک ہے تیری عقل پر۔ خاک ہے تیری عقل پر۔ اندھاہے تو عقل کا۔
آئندہ یاد کر لیجیئے۔ عورت تابعداری کرے لیکن شریعت کی حدود میں۔ خاوند نے حکم دیا ساس صاحبہ کو۔ آپﷺ نے فرمایا۔ نہ۔ یقیناً وہ عورتیں جو بالوں کو لگاتی ہیں ان پر لعنت کی گئی۔
گفتگو کا چوتھا نقطہ۔۔ خاتون گھر کی نگہبان ہے۔ اولاد کی نگہبان ہوتی ہے، خاوند کی امانتوں کی نگہبان ہوتی ہے۔ اور کل روز قیامت اس سے بازپرس ہو گی۔ اور اس بارے احادیث شریفہ موجود ہیں۔
پانچویں بات۔ خاتون شکوہ کو اپناشعار، اپنی عادت نہ بنائے۔ اگر ایک اسی بات کو بیٹیاں پکڑ لیں۔ تو گھر کا ماحول کتنا خوشگوار ہو جائے کہ نہ ہو جائے؟ خاوند آدھا آدھا بھی ہو۔ جب شکر سنے گا اس کی خیر میں اضافہ ہو گا یا کمی ہو گی؟ او اگر اچھا بھلا ہو۔ کیڑے نکالے جائیں، شکوہ کیا جائے۔ تو وہ پہلے سے اچھا ہو گا یا برا ہو گا؟ نبی کریمﷺ نے اس بارے میں بیت تلقین کی کہ خواتین خاوند کا شکرکریں۔
باقی نقاط کو چھوڑتے ہوئے دو منٹ میں ایک حدیث سماعت فرما لیجیئے۔ جس میں خواتین اور مرد، خاوند اور بیوی دونوں کی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔ حضرات آئمہ ابو داؤد، حکم، ضیاء المقدسی۔ تین محدثین نے اس حدیث کو روایت کیا۔ سیدنا ابن عباسؓ نے اسے روایت کیا۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں دنیا کے بہترین خزانے کی خبر نہ دوں؟ فرمایا ألْمَرْأۃُ الصَّالِحَۃُ نیک بی بی دنیا کا بیترین خزانہ ہے۔ بد بخت بکتے ہیں اسلام میں خواتین کی کوئے حیثیت نہیں۔ ایک یہ حدیث ان کو ہوش دلوانے کیلیئے کافی ہے۔ دنیا کی کوئی چیز اتنی قیمتی نہیں جتنی نیک بی بی قیمتی ہے۔
لیکن بیٹیاں بھی سن لیں ان کا دماغی توازن بدل نہ جائے۔ نیک بی بی اس کی تین خوبیاں بیان کی ہیں۔ نمبر ایک: خاوند دیکھے تو اس کو خوش کردے۔ اور اس میں بہت کچھ آ جاتا ہے۔ اب میں اسی پر رکوں گا۔ خاوند دیکھے تو خوش کر دے، نمبر دو: خاوند حکم دے تو اس کو مانے۔ اور یہ حکم کب مانے جب وہ شریعت کی حدود میں ہو۔ نمبر تین جب خاوند موجود نہ ہو، اس کی امانتوں کی حفاظت کرے۔ کتنی خوبصورت حدیث ہے۔ دونوں کی حیثیت، قدروقیمت، اور شان وعظمت کو اجاگرکر دیا۔ اسی حدیث پر گفتگوکو روکتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کہنے سننے کی غلطی کو معاف فرمائے۔ اور جو ٹھیک بات انہی کی توفیق سے کی گئی۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔ کہنے سننے والوں کو اس کا فائدہ نیا وآخرت میں نصیب فرمائے۔ اللہ کریم ہماری مجلس کو مبارک بنائے۔ اے اللہ ہماری آنا، بولنا، سننا اور جانا اپنے ہاں ہمارے گناہوں کی معافی، پریشانیوں کی دوری، نیک حاجات کے پورا کرنے کا سبب بنا۔ آمین۔
کو مبارک بنائے۔ اے اللہ ہماری آنا، بولنا، سننا اور جانا اپنے ہاں ہمارے گناہوں کی معافی، پریشانیوں کی دوری، نیک حاجات کے پورا کرنے کا سبب بنا۔ آمین۔