Miyan Biwi ke Huqooq – Part 1

میاں بیوی کے حقوق - حصہ ۱

0:00
0:00
Advertising will end in 
Nothing found!
This content is private
Please enter valid password!

درس کی تحریر: میاں بیوی کے حقوق- حصہ ۱

اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی سِلامٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصطَفی. رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي. رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ. وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ.أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ ۔

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ     

سورہ البقرہ:۲۲۸

انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی، کنبہ

انسانی معاشرے کا بنیادی یونٹ (unit)، اساسی اکائی وہ کنبہ ہے۔ اور کنبے کی اساس، بنیاد شوہر اور بی بی ہے۔ اگر انسانی معاشرے میں یہ بنیادی اکائی، اساسی یونٹ ٹھیک چلے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سارے معاشرے پر اس کے بہت اچھے اثرات ہوں گے۔ اور اگر اس میں کجی ہو، ٹیڑھ ہو تو سارے معاشرے پر اس کے بُرے اثرات ہوں گے۔ انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی، کنبہ۔ اور کنبے کی اصلاح سے معاشرے کی اصلاح کے امکانات بہت زیادہ روشن ہو جائیں گے۔ اور اس کی خرابی سے معاشرے کی بربادی اس کے امکانات بہت ہی زیادہ۔ 

اس بنیادی اکائی کی خیر کے لیے ایک بنیادی بات یہ ہے کہ اس یونٹ کے ممبرز اور بنیادی ممبرز میاں اور بیوی اپنےاپنے حقوق اور واجبات کو پہچانیں اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں. 

ہمارا دین جو دین کامل ہے، اس میں اس بارے میں بہت زیادہ اللہ کے فضل و کرم سے ہماری خیر اور سعادت کے لیے رہنمائی ہے۔

مرد کے بھی حقوق ہیں اور عورتوں کے بھی حقوق ہیں۔ 

مرد کی بھی ذمہ داریاں ہیں اور خواتین کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ 

بیوی کے حقوق اور درجات

دوسرا پارہ، سورہ البقرہ، اللہ کریم نے فرمایا:آیت شریفہ نمبر :۲۲۸

وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ​ وَلِلرِّجَالِ عَلَيۡهِنَّ دَرَجَةٌ ​ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ

‏ عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے

البقرہ آية ۲۲۸

وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ​ خواتین کے لیے حقوق ہیں جس طرح کہ ان پر واجبات ہیں وَلِلرِّجَالِ عَلَيۡهِنَّ دَرَجَةٌ ​ ؕ اور آدمیوں کے لیے ہی ان پر درجہ ہے وَاللهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ آدمیوں کے لیے جو اونچا مقام ہے وہ مطلق العنان نہیں، ان کے اوپر بھی کوئی ہے وَاللهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ اور اللہ تعالیٰ سب پر غالب ہیں اور نہایت حکمت والے ہیں۔ 

آج کی اس نشست میں، اللہ کرےکہ میرے نالائق، ناکارے اور آپ سب کے لیے خیروبرکات کا سبب بنے۔ اس میں اس یونٹ کے ایک فرد اور وہ “بی بی” اس کے حوالے سے کچھ بات عرض کرنے کی انشا اللہ کوشش کی جائے گی۔ اللہ وہ بات کہلوائے جو درست ہو اور بات وہ ہو جو ٹھیک ہونے کے ساتھ کہنے والوں اور سننے والوں کے دل میں، اور عمل میں آجائے۔ 

خواتین سے ہمارا مقصود ساری گفتگو میں بیویاں ہوں گی اور بیویوں کی اسلام میں بہت زیادہ حیثیت ہے۔ بیوی کو ٹشو نہیں، گندے سامان کی ٹوکری نہیں، کوئی باندی اور لونڈی نہیں اللہ کریم نے اس کی شان بہت ہی زیادہ بنائی ہے۔ آئیے اس بارے میں اپنی بات کی بجائے قرآن و سنت کی کچھ باتیں سنتے ہیں تاکہ اللہ کریم کی توفیق سے جو حقیقت ہو واضح ہو جائے. 

۱۔ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا اور آپ کا یہ ارشاد حضرات آئمہ، ابوداؤد حاکم اور ضیاء المقدسی نے سیدنا ابن عباس سے روایت کیا  ألا أخبرك بخير ما يكنز المرء؟ کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں کہ آدمی جو کوئی خزانہ دنیا میں حاصل کرتا ہے وہ ان تمام خزانوں میں سب سے زیادہ شاندار ہے۔ المرأة الصّالحة۔

تشریح، دنیا کا کوئی خزانہ اس کے برابر نہیں۔ اب دنیا  میں جو کچھ ہے آپ خود اس کا تصور آپ کر لیجیے۔ جو بھی ہے نبی کریم ان سب سے بُلند خزانہ کی خبر دینے والے ہیں۔ تو کس چیز کو دنیا کا سب سے بہترین خزانہ قرار دیا فرمایا: المرأة الصّالحة نیک بی بی۔ اللہ اکبر! اگر بیوی کی حیثیت شان کے بارے میں اور کچھ نہ ہو، ایک یہ بات کہ اب بہت کافی نہیں۔ مجھے جواب دو۔ جو بھی دنیا میں چیز ہے، محمد کریمؐ فرما رہے ہیں، وہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے، اور کون سی ہے المرأة الصّالحة، نیک بیوی اور جب ہم خواتین کے حقوق کی بات کریں گے تو اس حدیث کا بقیہ حصہ کہ نیک بیوی کی صفات کیا ہیں اس وقت ان کا ذکر کیا جائے۔ 

۲۔ بیوی کی حیثیت کو سمجھنے کے لیے آئیے اوپر چلتے ہیں، اپنے بابا آدم کی طرف! اللہ کریم نے انہیں پیدا فرمایا، جنت میں ان کی رہائش فرمائی۔ اس جنت میں، نوٹ فرمانا، اللہ کرے کہ میں غلط بات نہ کہوں اللہ غلط بات سے بچالے، اس جنت میں ان کا سکون کیسے مہیا کیا؟ بابا آدم اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنائے، فرشتوں سے سجدہ کروایا، جنت میں ان کا ٹھکانہ بنایا۔ تو ان کے سکون کے لیے کیا چیز ان کو عطا فرمائی؟ 

میرے ساتھ رب کریم کا ارشاد گرامی سماعت فرمائیے: سوره الروم،اکیسواں پارہ، آیت کریمہ ۲۱ 

وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُمۡ مَّوَدَّةً وَّرَحۡمَةً  ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں

الروم آية ۲۱

وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا  اور اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہے کہ انہوں نے تمہاری جانوں میں سے جوڑے بنائے۔ کیوں بنائے؟  اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا تاکہ تم ان کی جانب جاؤ اور سکون پاؤ۔  اِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُمۡ مَّوَدَّةً وَّرَحۡمَةً  ؕ اور تمہارے درمیان میاں اور بیوی کے درمیان دوستی اور مہربانی رکھی۔ یہ بات تو عام فرمائی۔ 

آئیے خصوصاً اپنے بابا آدم کی بات سنتے ہیں جہاں سے یہ کہانی شروع ہوئی. سورہ الاعراف آیت کریمہ نمبر ۱۸۹

هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّـفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا لِيَسۡكُنَ اِلَيۡهَا​ ۚ

وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے

الاعراف آية ۱۸۹

هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّـفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وہ ذات جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور وہ جان کون سی ہے سب بولو آدم۔ وَّجَعَلَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا لِيَسۡكُنَ اور انہوں نے ان  سے ان کی بیوی بنائی کیوں؟ زَوۡجَهَا لِيَسۡكُنَ اِلَيۡهَا​ ۚ تاکہ وہ ان سے سکون حاصل کریں۔ جنت میں سکون کے لیے اللہ پاک نے کیا بنایا بولو۔ بی بی حوّا۔ 

ایک مفسر لکھتے ہیں اللہ ان پر رحم کرے ہمارے والد ماجد آدمؑ کو جنت میں رہ کر بھی جہاں ہر نعمت تھی سکون اسی وقت حاصل ہوا جب اللہ تعالی نے خود ان کی ذات سے ان کی بیوی اور ہماری اماں، اماں حوا کو پیدا کیا۔ کیا شان ہے بیوی کی! بات سمجھ میں آ رہی ہے؟ ہاں یہ معاملہ ہے اور حقیقتاً ہے کہ اب بیوی اور خاوند ایک دوسرے کے لیے عذاب بن چکے ہیں۔ وہ جو نظام ہے اس میں نہیں ہے یہ خرابی، خرابی کس میں ہے؟ میاں میں ہے! بیوی میں ہے! ان نعمت کو عذاب بنائیں تو نعمت والے رب کا اس میں قصور نہیں۔ قصور ان کا ہے جنہوں نے اپنی سیاہ کاری سے، بد اعمالی سے، غلط کرتوتوں سے اللہ کی رحمت کو زحمت میں تبدیل کیا۔ 

۳۔ اسی حوالے سے تیسری بات جو بیوی کی شان و عظمت کو اجاگر کرتی ہے کہ بیوی سے کیا کچھ اور ملتا ہے۔ 

امام بیہقی حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں نبی کریمؐ نے فرمایا:

إذا تزوج العبد فقد استكمل نصف الدين فليتق الله في النصف الباقي

  جب بندہ شادی کرتا ہے تو اس کا آدھا دین، پچاس فیصد دین مکمل ہوتا ہے۔ 

رواه البيھقي في شعب الإيمان (5486، نسخة محققة: 5100)

 کہاں سے یہ مکمل دین آیا۔ اب اگر کوئی بیوی کے خلاف جتنا چاہے بولے حدیث تو نہیں بدل سکتی۔ بیوی کی بات کرنے پر کوئی کہے کہ آپ ہمیشہ طرفداری کرتے ہیں تو کہتا رہے۔ حقیقت تو وہ ہے جو اللہ نے بیان کی یا نبی ﷺ نے بیان کی۔ بات واضح ہو رہی ہے؟

فرمایا جب بندہ شادی کرتا ہے تو اس کا 50 فی صد دین مکمل ہو جاتا ہے۔ اب باقی 50 فی صد میں اللہ سے ڈر جائے تو تشریح میں ہے کہ اللہ مکمل کر دے گا۔ 

۴۔ چوتھی بات بیوی کوئی معمولی چیز اللہ نے بنائی ہے؟ ہاں۔۔ خاوندوں نے اور بیویوں نے اپنی کرتوتوں کی وجہ سے اپنی حیثیت کو برباد کر دیا۔ چوتھی بات ہم میں سے کون ہے جو نہیں چاہتا جب اس کا بڑھاپا آئے جب کوئی شخص اس کے پاس دنیوی فائدے کے لیے آنا پسند نہ کرے، سلام لینا پسند نہ کرے۔ کون شخص نہیں چاہتا کہ اس وقت اس کے جسم کے اپنے حصے اس کے جسم کے ساتھ چمٹے ہوئے ہوں۔ کوئی چاہتا ہے؟ یا کیا چاہتے ہیں کہ جب کوئی دنیوی طور پہ جب کسی کو ہم سے لالچ نہ ہو تو کوئی ایسا تو ہو جو صرف دلی تعلق کی وجہ سے ہمارے ساتھ چمٹے۔ 

اگر تربیت میں بربادی نہ ہو تو کون چمٹتا ہے؟ اولاد چمٹتی ہے، پوتے پوتیاں۔ غم کو خوشی سے، پریشانی کو راحت سے بدل دیتے ہیں۔ ان خوش نصیبوں سے پوچھیئے جن کے پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ان سے پیار کرنے والے اور ان سے پیار کرنے والے ہیں۔  تو ان کی زندگی کتنی خوشگوار ہوتی ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ نہیں؟! یہ ساری رونق کہیاں سے آئی؟ تھوک مارکیٹ سے خرید کے لائے ہیں؟ یا آفس سے لائے ہیں؟ آئیے سنیئے اپنے رب کے احسان کو۔ سورۃ النحل، آیت شریفہ ۷۲

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِكُمۡ بَنِيۡنَ وَحَفَدَةً وَّرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ​ؕ اَفَبِالۡبَاطِلِ يُؤۡمِنُوۡنَ وَبِنِعۡمَتِ اللّٰهِ هُمۡ يَكۡفُرُوۡنَۙ

اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اور اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کیے اور اچھی اچھی چیزیں تمہیں کھانے کو دیں پھر کیا یہ لوگ (یہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی) باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کے احسان کا انکار کرتے ہیں

النحل آية ۷۲

وَاللّٰهُ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا وہ ذات انہوں نے تمہاری جانوں سے بیبیاں بنائیں۔ اور اسکے بعد کیا فرمایا۔  وَّ جَعَلَ لَـكُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِكُمۡ بَنِيۡنَ وَحَفَدَةً اور تمہارے لیے تمہاری بیویوں سے کیا بنائے۔۔ بَنِيۡنَ وَحَفَدَةً۔ بیٹے اور پوتے۔ اللہ کے فضل و کرم سے بیوی آئے بیٹے آئے اور پوتے آئے۔ نہ بیوی آتی نہ بیٹے آتے نہ پوتے ہوتے۔ 

اور میرا یہی یقین ہے اگر کسی کی رائے مختلف ہو تو مجھے سمجھا دے۔ اگر اللہ کے فضل و کرم سے کرتوتیں بری نہ ہوں اور اللہ کی رحمت شامل حال ہوجائے۔ تو بڑھاپے میں جب آدمی خود کچھ کر بھی نہیں سکتا اور کوئی قریب آنا بھی نہیں چاہتا تو بیٹے اور اولاد بہت ہی بڑی نعمت ہے۔ ساری اداسیاں مٹ جاتی ہیں۔ پریشانیاں غائب ہو جاتی ہیں۔ شاداں و فرحاں ہو جاتے ہیں۔ تو یہ ساری خیر اللہ پاک نے کس ذریعے سے عام کی؟ 

۵۔ پانچویں بات دنیا میں ایک بہت بڑا مسئلہ روپیے پیسے کا ہے۔ اس میں بھی اللہ پاک نے بیویوں کا کوئی کردار رکھا ہے کہ نہیں۔؟ ہرچیز اگر بیوی میں ہے تو کس کی طرف سے ہے؟ بولتے نہیں؟ سمجھ نہیں آ رہی؟ فارسی سمجھتے ہیں؟ جواب دو؟ ہر چیز جو کسی مرد میں ہے عورت میں ہے، مجھ میں ہے آپ میں ہے، اللہ کی رحمت سے ہے۔ بیوی خدا نہیں۔ بیوی رب نہیں مگر جس میں اللہ نے جو رکھا ہے!! 

اب سنیئے پانچویں بات۔۔ بیوی میں اللہ پاک نے جو خیر رکھی ہے اس میں سے ایک۔۔ امام بزار اور امام حاکم نے اماں عائشہ سے روایت کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 

“عورتوں سے شادی کرو سو یقیناً وہ تمہارے پاس رزق لائیں گی۔” کہاں سے لائیں گی؟ بابے سے نہیں۔ یہ کمینگی ہے۔ عورت کے بابے کی طرف دیکھا جائے۔ ایسا آدمی ہمیشہ بھوکا رہے گا اور بھوکا رہنے کے قابل ہے۔ بیوی رزق لائے اللہ سے۔ کنبہ مسلما ن بناؤ انشاءاللہ اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جائیں گے۔ اور یہ چیز دیکھنے میں آتی ہے کہ نہیں؟  روزمرہ زندگی میں اللہ کے فضل و کرم سے اس کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

گفتگو کا دوسرا نقطہ۔۔ اتنی بڑی خیر والی نعمت میں کانٹےہیں۔ سن لیجیئے۔ ہمارے دین نے ہمیں پہلے سے آگاہ کر دیا ہے۔ کوئی پھول ہے ایسا دنیا میں جوکانٹوں کے بغیر ہو؟ تو یہ جو اللہ نے اتنا بڑا پھول دیا ہے اس میں کانٹے نہ ہوں گے!! ہمارے خوش نصیب کچھ ساتھی کانٹوں کو روتے رہتے ہیں اور باقی ساری بات بھول جاتے ہیں۔ 

یہ لوگ پنجابی میں سیاپا کرتے کرتے اپنی زندگی خراب کر لیتے ہیں۔ اچھی طرح نوٹ کرلیجیئے۔ ہماری شریعت میں دھوکا فریب نہیں۔ سودے میں دونوں پہلو اجاگر ہیں۔ اب مان نہ مان۔ مکرو فریب سے ہم کسی کو مسلمان نہیں کرتے۔ اس پھول میں کانٹے ہیں!!! اور کانٹے بھی ایسے ہیں کہ تو الٹا لٹک جا وہ کانٹے ادھر ہی رہنے ہیں۔ کیسی پیاری شریعت ہے ہماری۔ آیئے سنیئے صرف ایک حدیث شریف اس بارے میں۔ امام مسلم اور امام بخاری نے اسے روایت کیا۔ 

حضرت ابو ھریرہؓ اس حدیث کر راوی ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ 

بے شک عورت ٹیڑھی ہڈی سے پیدا کی گئی ہے۔ کبھی بھی تیرے لیئے سیدھی نہیں ہو گی۔

 پنجابی میں سیاپا کریا ڈھنڈورا پیٹ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ٹیڑھی ہڈی سیدھی ہو جائے۔

دوسری حدیث میں ہے:

”سیدھا کرنا چاہے گا ٹوٹ جائے گی“سیدھی نہیں ہو گی۔ قربان جائیں دین پر اوردین لانے والے نبی کریمﷺ پراور رب ذوالجلال شریعت پر۔ کتنا صاف ستھرا ہے ہمارا دین۔ دھوکا فریب اس کی د بھی نہیں ہے ہمارے پاس۔  پہلے سے بتلا دیا ہے۔ اس پھول کو لینا ہے لو نہیں لینا ہے نہ لو۔ تیرے نہ لینے سے اللہ کی شریعت بدل جائے گی؟ جا جدھر جاتا ہے چلا جا۔ کسی اور اللہ کے آسمان کے نیچے کسی اور اللہ کی زمین پہ چلا جا۔ ادھر یہی ہے۔ 

پھول ہے قیمتی۔ اور بہت قیمتی۔ اور اتنا قیمتی کہ پوری کائنات میں ایسی قیمتی چیز دنیا کی نہیں مگر ہے کانٹوں والا۔ اور کانٹے بھی ایسے ہیں کہ چننے سے چنے نہ جائیں۔

فرمایا  نبی کریمﷺ کہ اگر اس سے فائدہ حاصل کیا یعنی بہ حالات موجودہ جیسا سودا ویسا ہی۔  اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہے اٹھا لے اور اس کا ٹیڑھ باقی رہے گا۔ اور یہاں ٹیڑھ سے مراد بد کرداری نہیں۔ معاذاللہ۔ اس کیلیئے کوئی گنجائش نہیں۔ کوئی غلط معنٰی نہ لے۔ گندگی نہیں، نجاست نہیں۔ باقی جو ٹیڑھ پن ہے۔۔ 

اب تفسیر کیا کرنی ہے بیان۔۔ سمجھتے ہیں لوگ۔۔ جو ہے کجی۔ جس کو ہم پنجابی میں ”ڈینگ”” کہتے ہیں۔ نہیں جا سکتی۔ وہ رہنی ہی رہنی ہے۔ 

فرمایا اگر تو نے اس کو سیدھا کرنا شروع کیا ٹوٹ جائے گی۔  جب ٹوٹے گی تو اس کے معنٰی کیا ہے۔ طلاق ہو جائے گی۔ جاؤ اب جا کر اور لے آؤ جو اس ٹیڑھ سے خالی ہو۔ دنیا میں تو کوئی نہیں۔

اور میں تشریح میں بات سمجھانے کے لیے کر رہا ہوں۔ تیری ماں بھی نہیں۔ ماں بحیثیت بیوی نہیں لانی لیکن سمجھانے کے لیے۔ تیری اماں بھی نہیں، دادی بھی نہیں، نانی بھی نہیں، بہن بھی نہیں، پھوپھی بھی نہیں، خالہ بھی نہیں۔ تو تجھے بیوی کہاں سے سیدھی سادھی مل جائے۔ تو وہ چاہتا ہے جو اللہ نے بنائی ہی نہیں۔ تو کہاں سے ملے گی۔ چھٹی ہی کرے گا۔ 

یہ سودا ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا۔ اورمیرا گمان نہیں عقیدہ ہے اللہ کے فضل و کرم سے اگر یہ بات مردوں کی سمجھ میں آ جائے گھروں میں جو جھگڑے ہیں ان کا کتنا حصہ مٹ جائے۔ اور پھر دہرا کے تاکید سے کہتا ہوں کہ اس کا مطلب بد کرداری نہیں۔ معاذ اللہ۔ گندگی نہیں۔ شریعت کی خلاف ورزی نہیں۔ نہ نہ نہ۔ اس کے بارے میں کوئی گنجائش نہیں۔ کیا کہتے ہیں نو کمپرومائز(no compromise)۔ وہ اس میں داخل نہیں۔ عام جو روزمرہ کی زندگی کی باتیں ہیں وہ۔

تیسری بات۔۔۔ بیوی کی شان اللہ نے اتنی بنائی ہے کہ عبادت کرتے ہوئے عبادت کو ایک حد تک رکھنا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ عبادت کرتے کرتے بیوی کا حق تلف ہو۔ ایسی عبادت کی اجازت نہیں۔ 

اگر عبادت کی اجازت نہیں تو فش (fish) کھانے کے لیے گھر سے دور جانے کی اجازت ہے؟ آئسکریم کھانے جانا ہے۔ ہوا کیا ہے۔۔ دو تین سودے ہو گئے۔ بس۔ دماغ خراب ہو گیا۔ کہاں کہاں گھوم رہے ہیں ساتھی۔ تو وہ جو اس کے ذمہ میں بیٹھی ہے گھر۔ وہ کس کے لیے ہے۔ وہ دیواروں کے لیے آئی ہے؟ 

عبادت ایک حد تک ہے۔ جہاں عبادت میں بیوی کی حق تلفی ہو ایسی عبات نا پسندیدہ ہے۔ زیادہ سودے ہو گئے ہیں، زیادہ پیسے آ گئے ہیں۔ اب سارے ملک میں کوئی جگہ اس کو پسند ہی نہیں۔ یورپ جانا ہے۔ اور میں بات فرضی کر رہا ہوں یا حقیقت ہے؟؟؟ اب بس ہم جا رہے ہیں دل کرتا ہے، بس تنگ پڑ گیا ہوں۔ 

پہاڑوں پہ آنا تو عام ہے۔ یورپ امریکہ کہاں کہاں پہ دفعہ ہو جاتے ہیں۔ اور وہ کس کے ساتھ ہے۔ وہ کس کے لیے آئی ہے اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر۔ وہ اپنے گھر میں سونے کی چڑیا تھی۔ اس کے ماں باپ نے اللہ کے بنائے ہوئے نظام کی پابندی کرتے ہوئے۔۔۔ (کرائے پہ کوئی مکان نہیں دیتا، دیتے ہیں؟؟)۔۔ بیٹی دے دی، جسم کا حصہ دے دیا۔۔ 

وہ تیرے لیے آئی اور تو دفعہ ہو رہا ہے یورپ میں۔ اور اس سے چھوٹے درجے کا پہاڑوں پر۔ اور اس سے چھوٹے درجے کا ہوٹلنگ کیلیئے۔  گھر کس لیے ہے؟ کچن کس لیے ہے؟ کچن کو بھر۔ ساتھ بیٹھ کے کھا۔ مصیبت یہ پڑی ہے پیسے زیادہ آگئے ہیں۔ پیسے کیا زیادہ خاک آگئے ہیں؟ لوگوں کے قرضے دینے ہیں۔ جو سرمایہ ہے اس کا بھی پتہ ہے۔ کوئی ایسی بات بھی نہیں۔ بس دماغ کی خرابی ہے۔ 

سنیئے حدیث شریف۔ اور ایک نہیں اس کے بارے میں ایک سے زیادہ حدیث شریف۔

 امام بخاری اور امام مسلم نے سیدنا ابن عمروؓ سے روایت کیا۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا:

اے عبداللہ کیا مجھے خبر نہیں دی گئی کہ تو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو قیام کرتا ہے۔ ابن عمروؓ بیان کرتے ہیں: جی۔

دن کو روزے رکھنا، رات کو قیام کرنا عبادت تھی یا غیرعبادت؟ بیوی کو چھوڑکے پہاڑوں پہ آ جانا یہ زیادہ اچھی بات ہے یا عبادت کرنا اچھی بات ہے؟

آپ ﷺ نے فرمایا: فَلَا تَفْعَلْ ایسے نہ کرو صُمْ وَأَفْطِرْ روزہ رکھو اور روزہ چھوڑو وَقُمْ وَنَمْ رات کو تہجد پڑھو اور سوؤ۔ 

اب یہ جو حکم دیئے۔ کیوں دیئے؟ اس کا سبب بیان کیا۔ 

فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا سو یقیناً تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے۔ وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا اور یقیناً تیری آنکھ کا تجھ پر حق ہے۔ وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا۔ اور یقیناً تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔

اللہ کے بندے ہوش کر۔ مسلسل روزوں کی، مسلسل تہجد کی، لمبی رات تہجد کرے اور بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے۔ تو جب ایسے روزوں کی اجازت نہیں، ایسی تہجد کی اجازت نہیں۔ تو باقی کس بات کی اجازت ہے؟ اللہ کرے میری بات سمجھ میں آ جائے۔ 

اور اسی قسم کا قصہ حضرت سلمان بن فارسیؓ کا ابو درداؓ کے ساتھ ہوا۔ حضرت ابودرداؓ کو سمجھایا۔ نبی کریم ﷺ کو اطلاع دی گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا سلمانؓ نے جو کہا ہے وہ سچ کہا ہے۔ 

اور اسی قسم کا واقعہ عثمان بن مظعونؓ کے ساتھ ہوا۔ آپ ﷺ نے ان کو بھی اچھی طرح پوچھا۔ باز پرس کی۔ یہ کیا کر رہے ہو۔ تو گفتگو کا تیسرا نقطہ یہ تھا کہ حد سے بڑھی ہوئی عبادت جس کی وجہ سے اس کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو، اس کی اجازت۔۔ بولو۔۔ نہیں ہے۔  باقی کاموں کی اجازت؟؟ ہیں؟؟

چوتھی بات۔۔ اللہ کریم نے بیوی کے ساتھ اچھی طرح معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور نبی کریم ﷺ نے اس کی تاکید کی ہے۔ قرآن و سنت میں اس کے بارے میں جو بہت کچھ ہے، اس میں سے ایک بات۔ سورۃ النساء آیت شریفہ ۱۹۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ​ ۚ فَاِنۡ كَرِهۡتُمُوۡهُنَّ فَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡــًٔـا وَّيَجۡعَلَ اللّٰهُ فِيۡهِ خَيۡرًا كَثِيۡرًا‏

ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو

النساء آية ۱۹

وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ​ ۚ

اور ان کے ساتھ بھلائی کے ساتھ معاملہ کرو۔ 

فَاِنۡ كَرِهۡتُمُوۡهُنَّ فَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡــًٔـا وَّيَجۡعَلَ اللّٰهُ فِيۡهِ خَيۡرًا كَثِيۡرًا‏

سو اگر تم انہیں نا پسند کرو۔ اور پھر بار بار نوٹ کیجیئے کہ ناپسندیدگی یا ٹیڑھا پن ان کا تعلق اخلاق سے یا دین کی بنیادی باتوں سے قطعاً نہیں۔ بے نماز ہے، بے پردگی پر اصرار کرنے والی ہے۔ ۔۔۔گندی ہے۔۔ وہ بات سرے سے یہاں ہے ہی نہیں۔ بات واضح ہو رہی ہے کہ نہیں؟ اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

فرمایا اگر تم انہیں ناپسند کرو۔ فَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡــًٔـا تو ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو وَّيَجۡعَلَ اللّٰهُ فِيۡهِ خَيۡرًا كَثِيۡرًا‏ اور اللہ اس چیز میں بہت زیادہ خیر رکھے۔ 

آج ایک سودا لے رہا ہے۔ چھلانگیں لگا رہا ہے۔ پچیس فیصد، تیس فیصد۔ تو بالکل پتہ ہی نہیں۔ اب وہ سودا بک ہی نہیں رہا۔ برابر بھی نہیں ہو رہے۔ خسارہ ہو رہا ہے۔ تجھے کیا پتہ ہے! پتہ کن کو ہے۔ عَلامُ الْغُيُوبِ کو۔ 

اور نبی کریم ﷺ نے اس بات کو بڑے خوبصورت انداز سے بیان فرمایا۔ امام مسلم راحمۃ اللہ نے سیدنا ابو ھریرہؓ سے روایے کیا۔ 

لاَ يَفْرَك مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَة إِنْ كَرِه مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَر۔ أو قال:غَيرُه

کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے متنفر نہ ہو۔ اگر اسے اس کی کوئی خصلت بری لگتی ہے تو اس کی کوئی عادت اسے پسند بھی ہو گی۔ یا پھر آپ ﷺ نے آخر کے بجائے غیرہ(دوسری عادت) فرمایا۔ 

‏رواه مسلم

فرمایا کوئی مومن مرد مومن عورت سے (مرد سے مراد خاوند اور مومن عورت سے مراد بیوی)۔ کوئی ایمان والا مرد ، ایمان والی عورت سے۔۔ جب ایمان نہیں تو وہاں بات ختم ہے۔ وہاں نہیں چلے گی اور نہ اسلام چلاتا ہے۔ کوئی ایمان والا مرد ، ایمان والی عورت سے بغض نہ کرے، نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی ایک عادت۔۔ اس کو ناپسند کرتا ہے۔ تو دوسری عادت۔۔ وہ پسندیدہ ہے۔ 

اب ایک عادت کی بنا پر ڈّٹ جانا۔ تو نتیجہ کیا ہو گا جو پہلے سن چکے ہیں۔ کیا ہو گا؟ طلاق۔ دینی ہے دے دو۔ جاؤ!! اللہ کی بادشاہی ٹوٹ جائے گی؟ زمیں پھٹ جائے گی؟ ہاں تیرے لیے۔ جو کچھ ہو گا تو جانے گا۔ 

نبی کریم ﷺ نے اور اللہ کریم نے بیبیوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کا حکم دیا۔ اگرچہ اس کے کچھ اخلاق پسند نہ بھی ہوں۔ اور اس سے پہلے تین نمبر میں کیا سن چکے۔۔ ٹیڑھ پن تو ہے، رہنا ہی ہے۔ گزارا کرنا ہے کرو۔ نہیں کرنا ہے جاؤ چھٹی کرو۔ کتنا صاف ستھراسبق ہے!! 

اگر مجھےنہ اجازت ہے میں نے تو کہنی ہے۔ یہ جو اتنے کیڑے نکال رہا ہے۔ اپنے بارے میں کیا سمجھتا ہے۔ آپ میں سے کوئی ہے جس میں کوئی کیڑا نہ ہو؟ ذرا ہاتھ کھڑا کریں۔ میں اس کا ہاتھ تو چوم لوں۔ 

پانچویں بات۔۔ سنیئے۔ عجیب پات ہے۔ میرے نزدیک تو بڑی عجیب بات ہے۔ شاید آپ بھی میرے ساتھ محسوس کریں۔ بیوی۔۔ صرف اسی کی۔۔ اللہ اکبر۔ ہمارا تو آوے کا آوا ہی برباد ہے۔ اور میرا خیال ہے اسی بات پر وقت ہو جائے گا تو میں انشاءاللہ چھوڑ دونگا۔ 

صرف بیوی نہیں کہ اللہ پاک نے اس کی شان بنائی بلکہ اس کے گھر والوں کی اللہ کریم نے بڑی شان بنائی۔ کچھ بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ نہیں؟ آج ساری بات شاید پڑی اوپری اوپری ہے۔ ہاہا۔

صرف بیوی نہیں، اللہ کریم نے اپنی رحمت سے بیوی کے پیچھے ان کی بھی بہت شان رکھی۔ اختصار سے آج کے سبق کا شاید یہی آخری حصہ ہو۔ تین باتیں سماعت فرما لیجیئے۔ 

امام احمد راحمۃ اللہ نے عبداللہ ابن عمروؓ سے روایت کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کسی شخص کی کسی وجہ سے عزت کی جاتی ہے، ان سب میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کو اپنی بیٹی یا بہن دے دے۔ 

دوبارہ سنیئے۔ اگر کوئی شخص قابل احترام بنتا ہے۔ اس کے جو اسباب ہیں۔ اس پہ یقین ہے یا نہیں؟ یقین ہو گا تو مسلمان ہونگے۔ ورنہ مسلمانی کہاں جائے۔ فرمایا جس وجہ سے کسی شخص کی عزت کی جاتی ہے اس میں سے سب سے بڑا سبب یقیناً کوئی اپنی بیٹی یا بہن دے دے۔ 

اب جو اپنے سسرال سے اچھا سلوک کرے اسکو کیا کہتے ہیں۔۔ اس کے غلد سلط نام رکھ دیتے ہیں۔ ہاں یہ بات نوٹ کر لیجیئے، دین کے خلاف کسی کی بھی نہیں ماننی۔ سسرال کی کتنی عزت ہوجائے۔ ماں باپ کے بعد ہیں۔ دین کی خلاف تو ان کی بات بھی نہیں ماننی۔ دین کے خلاف والی۔۔ وہ دروازہ بند ہے۔ وہ ماں باپ کے لیے نہیں کھلا تو ان کے لیے کب ہو گا۔ باقی عزت و احترام اس کی بات،  اس بارے میں دوسری بات یا دوسری دلیل۔

امام مسلم راؒحمۃ اللہ نے سیدنا ابو درداؓ سے روایت کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یقیناً تم مصر کو فتح کرو گے۔ سو تم جب اس مصر کو فتح کرو تو مصر والوں سے اچھا سلوک کرنا۔ 

اب یہاں ہے نقطہ۔ کیوں؟ کیونکہ ان کا ذمہ ہے۔ ان کی ہمارے اوپر ذمہ داری ہے اور ان سے رشتہ داری ہے۔ 

اور دوسری روایت میں ہے کیونکہ ان کی ہم پر ذمہ داری ہے اور ان سے ہماری سسرالی رشتہ داری ہے۔ کیا سسرالی رشتہ تھا؟ نبی پاک ﷺ کا بیٹا ابراہیم جو بچپنے میں فوت ہو گیا تھا۔ اس کے ننھیال کہاں تھے؟ مصر۔ ماریہ قبطیہ۔ قبطی لوگ مصر کے ہوتے ہیں۔ مصر کے اصل باشندے۔ تو ان کی والدہ ماریہ۔ وہ مصریہ تھی۔ تو نبی پاک ﷺ نے اس ماریہ کی وجہ سے اس کے ملک والے، صرف کنبہ نہیں۔ سسرالی گاؤں آپ تو کہتے ہیں، سسرالی ملک کو کیا حیثیت دی کہ ان کے ساتھ معاملہ اچھا کر دیا۔ 

صرف یہی نہیں اس حدیث کی شرح میں ایک اور بات کہی گئی کہ صرف ماریہ نہیں اس سے دور اوپر والی بات۔ سیدنا نبی اللہ اسماعیلؑ، ان کی اماں ان کے ننھیال کہاں کے تھے۔ اور نبی کریم ﷺ اور ان کے جد اعلیٰ میں کتنا فاصلہ ہے۔ اللہ ہی جانے۔ ہمیں تو کچھ پتہ نہیں۔ سسرالی ان کی وجہ سے مصریوں کی یہ عزت ٹھہری کہ ان کے بارے میں پیشگی تاکید ہو رہی ہے۔ کہ جب مصر فتح کرو تو ان کے ساتھ ..

تو یہاں سسرال والوں کو کیا کہتے ہیں، معاذاللہ۔ نقل کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اور نقل نہ ہی کروں۔ دل نہیں کرتا۔ کیا بکواس کرتے ہیں۔ کہ وہ۔۔ اس کے بعد میں نہیں مسجد میں کہنا چاہتا۔ یہ خود گھٹیا لوگ ہیں۔ عزت سے خالی لوگ ہیں۔ اس بد بخت کو پتہ نہیں کہ تیری اماں بھی آئی ہے۔ اور تیری بیٹیاں بہنیں وہ بھی کسی کے گھر جائیں گی یا جا چکی ہیں۔ تیری پھوپھیاں، تیری خالائیں کہاں ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں ہیں یا تیرے گھر میں ہیں۔ تو ان کے بارے میں کیا بکواس کرینگے۔؟

تیسری اور اس سارے سبق کی آخری بات۔۔ پانچویں سال ہجرت کے۔ شوال کے مہینہ میں۔ دو شوال کو بنو مصطلق سےجھگڑا ہوا۔ اس  قبیلہ کے 100 کنبے، 700 افراد قیدی بنائے گئے۔ 

اس کنبہ کے سردار کی بیٹی جویریہ نبی کریم ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ اور وہ قبیلہ کیا بن گیا۔ سسرال۔

 تو کیا ہوا۔ اس قبیلہ کے سسرالی بننے کی خبر پھیلی۔ حضرات صحابہ نے کہا یہ ممکن نہیں کہ سسرالی ہوں نبی کریم ﷺ کے اور اس قبیلے کا کوئی بندہ ہماری غلامی میں رہے۔ نہیں۔۔۔ اس ایک رشتے کی برکت سے اللہ کے فضل و کرم سے 100 کنبے 700 افراد کو آزادی ملی۔ اور کیا ہوا۔۔ اس کنبے کا جتنا مال مال غنیمت کے طور پر مسملمانوں کے ہاتھ آچکا تھا وہ واپس کیا گیا۔ 

امام حاکم نے اماں عائشہؓ کے حوالے سے روایت کیا۔ مال غنیمت میں جو رسی تھی، پرانی مشک تھی، برتن تھے، دو ڈولنوں کے درمیان پانی اٹھانے کی جو رسی ہوتی ہے،وہ بھی واپس کر دی۔ ساری چیزیں حضرات صحابہ نے واپس کر دیں۔ تشریح: یہ ممکن نہیں کہ نبی کریم ﷺ کا سسرالی قبیلہ ہو اور ان کے مال کا کوئی حصہ ہمارے پاس بطور غنیمت رہ جائے۔ نہیں۔ یہ اب عزت والے بن گئے ہیں۔ ان کی ہر چیز ان کو واپس کرو۔ 

یہیں پر بات کو روکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے پھر یہاں جڑیں جب باری آئے گی مری کی۔ اللہ کریم اپنے فضل و کرم سے جو کہا اور سنا گیا۔ اس کی جو غلطی ہے وہ معاف فرمائے۔ اور جو ٹھیک بات عرض کی گئی وہ صرف کہنے اور سننے تک نہ ہو۔ اللہ ہماری زندگیوں کا حصہ بنا دے اور اس کی برکتیں ہمیں اپنی آنکھوں سے دکھا دے۔ ہمارے گھروں میں اطمینان آئے، سکون آئے، پیار آئے۔ اور یقیناً شریعت کی ہر بات پر خیر ہو گی۔ اور شریعت کی ہر بات چھوڑنے پر شر ہے۔ اور ہم شر کو سمیٹ رہے ہیں اور خیر سے محروم کر رہے ہیں۔ اللہ ہمیں خیر کو سمیٹنے والا اور شر سے بچنے والا بنا دے۔ اور جو ہو چکا اپنی رحمت سے معاف کر دے۔ اللہ کہنے کی، سننے کی، سنانے کی، سمجھنے سمجھانے کی غلطی معاف کر دے۔ نیتوں میں جو خرابی ہے، بول میں خرابی ہے، عمل میں جو خرابی ہے۔ اور ہے۔۔ نہ نیتوں کی کوئی گارنٹی ہے نہ عمل کی۔ کسی چیز کی کوئی گارنٹی نہیں۔ اللہ پاک ہماری غلطیوں پہ نہ پکڑنا۔ اگر کوئی اچھی بات ہے تو اپنی رحمت سے بیڑہ پار کر دینا۔  

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔ وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ۔ وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلیٰ خَیْرِ خَلْقِہٖ وَ عَلیٰ آلِہٖ وَأَصْحَابِہٖ وَاَھْلِ بَیْتِہٖ وَأَتْبَاعِہٖ اِلٰی یَوْمِ الدِیْنِ۔

Share on WhatsApp