Ni’maton Kay Mutaliq Pocha Jaey Ga

نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا

0:00
0:00
Advertising will end in 
Nothing found!
This content is private
Please enter valid password!

درس کی تحریر: نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا

اَلْحَمْدُ لِلّٰەِ وَکَفٰی وَالصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی مَا لَّا نَبِیَّ بَعْدَہ، وَ عَلٰی آلِەٖ وَ اَصْحٰبِەٖ اما بعد 
أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ثُمَّ لَـتُسۡـَٔـلُنَّ يَوۡمَٮِٕذٍ عَنِ النَّعِيۡمِ

(‏التكاثر: ٨)

ترجمہ: اور تم لوگ یقیناً یقیناً اس دن اپنی نعمتوں کے بارے میں پوچھے جاؤ گے۔

اس دن تم یقیناً، یقیناً ان نعمتوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔ سامعینِ گرامی! میری اور آپ کی ساری زندگی جو ہے، اس کا مقصد کیا ہے؟ زیادہ سے زیادہ نعمتیں اکٹھی ہوں۔ اس کے علاوہ اور ہمارا، بڑے تھورے ہیں جن کا کوئی اور مقصد ہو، بہت تھورے ہیں۔ ورنہ پیدائش سے لے کے بچے کی کہ بچہ پیدا ہی ہے ہوتا ہے ماں باپ کیا کہتے ہیں اسے بڑا انسان بنانا ہے. کیوں بڑا انسان  بنانا ہے؟ تاکہ دنیا زیادہ سے زیادہ اکٹھی کرے۔ یقیناً سارےاور ممکن ہے ۹۹ پرسینٹ (%99) لوگ ایسے ہی ہوں، شاید ۱ پرسینٹ (%1) لوگ ہوں جو اس کے علاوہ کچھ اور سوچیں۔ اس کو بڑا انسان بنانا ہے، اس کو پڑھانا ہے، اس کو بزنس مین (businessman) بنانا ہے کیوں؟ تاکہ نعمتیں بڑی اکٹھی کر لے، بس اس کے بعد اگلی زندگی کیسے گزارے اس کی کوئی پرواہ نہیں.

اللہُ اکبر۔ نعمتیں اکٹھی کرنا، دنیا اکٹھی کرنا، حلال طریقے سے دنیا کمانا اچھی بات ہے۔ لیکن یہ ہے جو کمائیں گے اس کا حساب بڑا سخت ہو گا۔ جو بھی ہو گا۔ 

حرام، اس کی تو پکڑ ہے ہی ہے جو حلال بھی ہے نا اس کے متعلق سوال ہو گا، سوال ہو گا، کہاں سے آیا؟ کس طرح استعمال کیا؟ کیوں کیا؟ کیسے کیا؟

ہم لوگ افطاری کا وقت ہوتا ہے تو اللہ کا شکر ہے، اللہ کا شکر ہے، اللہ کا شکر ہے۔ وقت افطاری کا ہوتا ہے اذانِ مغرب کے ساتھ، لیکن ہم لوگ افطاری کی تیاری کب شروع کر لیتے ہیں؟ عصر کے بعد۔ وہ کس لیے ہوتا ہے؟ سارا دن کھانا پینا بھی نہیں اور کوئی کام نہیں۔ بیوی بھی، بچے بھی، خاوند بھی، خاوند باہر سے چیزیں لا رہا ہے، بیوی گھر میں پکا رہی ہے، بچے اس کو اٹھا اٹھا کے دسترخوان پہ، ٹیبل پہ رکھ رہے ہیں۔ یہی کچھ ہوتا ہے نا؟ مغرب تک یہی دوڑ لگی رہتی ہے۔ کیا ہے وہ صرف منہ اور پیٹ کا کام اور تو کوئی نہیں۔ جب افطاری کے بعد کھا کے فارغ ہوں، سارا دسترخوان صاف ہو تو سوچیے وہ ساری محنت کدھر گئی۔ رائیگاں ہو گئی ہے ساری۔ اندر چلی گئی ہے، بس ختم اب۔ لیکن جو اندر گیا ہے ہم تو بھول جائیں گے لیکن جس رب نے نعمتیں دی ہیں وہ نہیں بھولے گا، پوچھے گا۔ پوچھے گا۔ 

ایک واقعہ ہے۔ سنتے ہیں۔ کہ ہم لوگ اتنا کھاتے، اتنا پیتے،اتنی نعمتوں میں اور یہ بھی نہیں دیکھتے، کہاں سے آئی ہیں کیسے استعمال کیا ہے۔ اور اللہ کے رسولﷺ اور صحابہ اکرامؓ جنہیں ملتا ہی کچھ نہیں تھا، اور کبھی کچھ ملتا تھا، کبھی کچھ ملتا تھا۔ اب واقعہ سنیں۔ کبھی کچھ ملتا تھا ورنہ عام ان کے پاس کچھ کھانے کو بھی نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کچھ ملتا تھا اور وہ اسی پریشانی میں ہوتے تھے کہ کل اللہ نے اس کے متعلق پوچھا تو کیا کہیں گے۔ 

امام بخاری، امامِ مسلم، بلکہ امام مسلمؒ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن یا ایک رات نبی کریمﷺ اپنے گھر سے باہر نکلے۔ اب سوچیے کہ اگر رات کو نکلے تو رات کو آدمی باہر کیوں نکلتا ہے اور وہ رات آج کی رات تو نہیں تھی۔ وہ رات آج کی طرح تو نہیں تھی۔ روشنیاں، دکانیں، بازار،سڑکیں، لوگ۔ تب تو یہ تھا کہ عشاء ہوئی اور اس کے بعد، عشاء جو ہے اسی لیے عشاء کی فضیلت بہت زیادہ ہے کہ وہ سونے کا وقت ہوتا ہے، نیند کا وقت ہوتا ہے۔ نبی کریمﷺ اپنے گھر سے باہر تشریف لائے، جب آپ باہر آئے تو حدیث کے الفاظ ہیں:

فَإِذَا هو بأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ

الصفحة أو الرقم: 2038 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]

اب باہر آئے تو سامنے ابوبکر بھی تھے اور عمر بھی تھے دونوں وہ بھی سامنے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔ او میرے ساتھیو کس چیز نے گھر سے نکالا ہے وقت تو دیکھو۔ وہ کہنے لگے الجُوعُ يا رَسولَ اللهِ  اللہ کے رسولﷺ! وقت تو سونے کا ہے لیکن پیٹ میں ہے ہی کچھ نہیں، نیند کہاں سے آئے۔ پیٹ میں کچھ نہیں ہے سوئیں کیسے۔ اور ہمیں پتہ ہے نیند بندے پہ کس طرح غالب آتی ہے۔ جو مرضی ہو نیند آدمی کو سلا دیتی ہے۔ اس کا معنیٰ یہ ہے بھوک اتنی شدید تھی اس نے نیند بھی نہیں آنے دی۔ بھوکا بچہ ہوتا ہے نا روتا رہے، روتا رہے، نہ کچھ ہو ماں سلا دے سو جاتا ہے لیکن بھوک اتنی بڑھی ہوئی ہے دونوں کو نیند ہی نہیں آ رہی۔

نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، اے میرے دونوں ساتھیو! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے بھی اسی چیز نے باہر نکالا ہے جس نے تمہیں باہر نکالا ہے۔ کون نکلا ہے؟ وہ باہر نکلے ہیں جن کے گھر میں دن اور رات میں پتا نہیں کتنی بار جبرئیل آتے ہیں، کتنی بار جبرئیل آتے ہیں، دن اور رات میں اور جبرئیل کہاں سے آتے ہیں؟ اللہ کے پاس سے۔ تو ان کے پاس رات کھانے کو کچھ نہیں۔

نبی کریمﷺ نے فرمایا  مجھے اسی چیز نے نکالا ہے جس نے تمہیں نکالا ہے۔ چلو آؤ میرے ساتھ، قُومُوا۔ آؤ میرے ساتھ! وہ دونوں کھڑے ہو گئے۔

حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ان دونوں کو ساتھ لے کے،ایک انصاری صحابی تھے ان کے پاس آئے اور وہ انصاری صحابی جو تھے ان کا باغ تھا اور باغ میں ہی ان کا گھر تھا۔ آپﷺ تشریف لائے تو انصاری صحابی، ان کی بیوی صحابیہ موجود تھیں۔ انہوں نے اللہ کے رسولﷺ کو دیکھا تو وہ تو خوشی سے بے قابو ہو گئی کہ کون آیا ہے آج گھر۔ کہنے لگی: مرحبا اھلا دیدہ و دل فرش راہ۔ دل و جان قربان ہو۔ تشریف لائیے، تشریف لائیے، آج کون آیا ہمارے گھر۔ نبی کریمﷺ نے پوچھا کہ خاوند کدھر ہے، مالک کدھر ہے؟ وہ کہنے لگی کہ اللہ کے رسولﷺ! پانی لینے، میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ اب دیکھیئے ان لوگوں کی زندگی کیسی تھی۔ رات کا وقت ہے اور یہ کھاتے پیتے لوگ ہیں، باغ ہے ان کا اور باغ میں گھر ہے، درخت ہیں کھجوروں کے، لیکن پانی لینے کے لیے باہر گئے ہوئے ہیں۔ کتنی نعمتیں ہیں اللہ کی۔ سرد راتوں میں بیڈ کے ساتھ ہی ہمارا ٹوائلٹ ہے اسی میں ہی گرم ٹھنڈا پانی۔ بیڈروم، وہ بھی گرم اور ٹوائلٹ، وہ بھی کوزی (cozy) قسم کا ہوتا ہے۔اور پھر بھی ہم فجر کی نماز نیہں پڑھتے، ٹھیک ہے نا۔ نیند ہی ایسی آتی ہے آنکھ کھلے تو کب کھلے۔

 تو وہ کہنے لگیں جی پانی لینے گئے ہیں۔ اتنی دیر میں وہ صحابی پانی لے کے آ گئے۔ انہوں نے نبی کریمﷺ،اور ابوبکر اور عمر کو دیکھا تو کہنے لگے الحمدللہ۔ اللہ ساری تعریف تیرے لیے ہے۔ پھر اس کے بعد کہنے لگے، لوگو! آج میرے گھر جو مہمان آئے ہیں، ان سے زیادہ عزت والا مہمان کسی کے گھر جا ہی نہیں سکتا۔ کیسی بات کی ہے! ان سے زیادہ عزت والا مہمان کسی کے گھر جا ہی نہیں سکتا۔ کیوں؟ ان سے زیادہ کسی کی عزت ہے ہی نہیں۔ اور انہیں کی ہے تو یہ میرے گھر آئے ہیں کسی اور کے گھر یہ جا ہی نہیں سکتے۔ تو آج لوگوں میں سب سے زیادہ خوش قسمت ہوں کہ میرے پاس وہ آئے ہیں کہ جن سے زیادہ عزت والا مہمان دنیا میں ہے ہی نہیں۔ خوشی! کہا تشریف لائیے، تشریف لائیے۔ آپﷺ ابوبکر اور عمرؓ کے ساتھ بیٹھے۔ صحابی دوڑے، درخت پے چڑھ گئے۔ درخت پے چڑھ گئے تو کھجوروں کا ایک خوشہ اتارا اورحدیث کے الفاظ ہیں کھجوریں جو لے کے آئے اس میں تر کھجور بھی تھی، خشک کھجور بھی تھی اور کھجور بننے سے پہلے جو سخت ہوتی ہے جس کو کہتے ہیں ڈوکہ، کہتے ہیں نہ ڈوکہ، وہ تینوں قسم کی تھیں۔ دیکھو، جو ان سے ہو سکا وہ تینوں قسم کی لائے۔ تر بھی، خشک بھی، گیلی بھی، سوکھی بھی۔ اور کھجور اس کا مزہ علیحدہ علیحدہ۔ تر ہو تو اس کا مزہ اور ہے، خشک ہو تو اس کا مزہ اور ہے، ڈوکہ ہے جو ابھی سخت ہوتی ہے اس کا مزہ اور ہے۔ وہ تینوں لے آئے۔ لا کے سامنے رکھے تو کہنے لگے تناول فرمائیے۔ نبی کریمﷺ اور آپ کے دونوں صحابی انہوں نے کھانا شروع کیا تو انہوں نے فوراً چھری پکڑ لی اور دوڑے۔ معلوم ہوتا ہے جانور بھی تھے۔ بکرے، بکریاں اس کو ذبح کرنے کے لیے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: إِيَّاكَ وَالْحَلُوبَ جانور تو ذبح کرنے لگے ہو لیکن میرے ساتھی، جو دودھ دینے والا جانور ہے اسے نہ ذبح کرنا، اسے نہ، اس کو کرو جو دودھ نہیں دیتا ہے۔ دودھ والے کو کرو گے تو جانور بھی جائے گا جو دودھ دیتا ہے۔ نہ!

تو نبی کریمﷺ سید الاولین و الآخرین ہیں لیکن ایک ایک چیز پہ دھیان کتنا زیادہ ہے۔ اب انہوں نے جانور ذبح کیا اور حدیث میں آتا ہے بکری ذبح کی۔ اب انہوں نے لا کے پیش کی تو نبی کریمﷺ اور آپ کے صحابہ نے گوشت بھی کھایا، کھجوریں بھی کھائیں، پانی بھی پیا۔ آج کے دور میں ہم کتنی بڑی چیز سمجھتے ہیں کیں جی۔ روٹی کو، گوشت کو، کھجوروں کو تو خیر آج کل سمجھتے ہی کچھ نہیں۔ کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ رمضان میں تو چلو افطاری کے لیے ٹھیک ہے ویسے کسی کے آگے خالی کھجوریں رکھیں وہ کہتے ہیں پائی چُک کے لے جاؤ۔ پھل لے کے آؤ کنو،مالٹے، سیب،آم۔ یہ کیا لے کے آ گئے ہو۔ کھجوریں، گوشت اور پانی۔۔۔ 

فارغ ہوئے تو نبی اکرمﷺ نے ابو بکرؓ اور عمرؓ دونوں کو فرمایا، اے میرے دونوں ساتھیو!

وَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ، لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هٰذَا النَّعِيمِ يَومَ القِيَامَةِ۔۔۔

اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هٰذَا النَّعِيمِ يَومَ القِيَامَةِ میرے دونوں ساتھیو! کل قیامت کے دن تم دونوں سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ کتنی نعمتیں ہیں بتائیں، کتنی قسمیں، جس حالت میں ہیں اب وہ نعمت نہیں ضرورت ہے۔ ٹھیک ہے نا۔ ایک ہوتی ہے نیڈ (need)، نیسیسٹی (necessity)۔ اور ایک ہوتی ہے luxury، accessories یہ کیا۔ یہ تو ضرورت ہے ان کی ، بھوک ہے، کتنے کھانے ہیں۔ آپ نے فرمایا یقیناً، یقیناً تم دونوں سے کل قیامت کے دن ان نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔ پھر ارشاد فرمایا، بھوک نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور پھر تم اپنے گھروں کو اب جا رہے ہو اس حالت میں کہ تمہیں یہ نعمتیں مل چکی ہیں، اللہ پوچھے گا۔

سامعینِ گرامی ہم کیا جواب دیں گے! ابھی تو صرف یہ ہے نعمتوں کا پوچھا جائے گا۔ اس کے بعد یہ پوچھا جائے گا کتنی نعمتیں دی تھی کیا کیا تھا؟ اس کا ہمارے، چلو یہ تو جن کی زندگیاں ، جن کی زندگیاں، اللہ ان کی زندگی میں ان لوگوں کو جنت کی بشارت دے چکا ہے، اللہ کے محبوب لوگ ہیں۔ ان سے سوال ہو گا تو ہم، ہمارا تو یہ بھی نہیں پتا حلال ہے، حرام ہے۔ کیا جواب دیں گے؟ اس لیے نعمتیں استعمال کریں۔ لیکن یہ ہے کہ نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے، کرنے سے پہلے، کرنے کے بعد جواب ضرور سوچ لیں کہ اللہ نے پوچھا تو یہ کہیں گے۔ اللہ رب العالمین جب تک زندہ رکھے، نعمتوں میں رکھے لیکن اس کے ساتھ نعمتوں کو استعمال ایسے کریں کل قیامت کو جواب دے سکیں، جواب دے سکیں۔ آپ خود دیکھ لیں کسی بندے نے اکاؤنٹینٹ رکھا  ہونا اکاؤنٹلیٹ(accountant)، جب اس کا باس (boss) سامنے بیٹھ کے حساب لے رہا ہو اچھا ایماندار آدمی بھی ہو, اس کی جان پہ بھی بن جاتی ہے، نہیں بن جاتی؟ کہ یہ ادھر کیوں گیا؟ اِدھر کیوں گیا؟ وہ تنگ پر جاتا ہے۔ 

تو اللہ رب العالمین مجھ سے، آپ سے جب پوچھیں گے تو ہم کیا جواب دیں گے؟

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّد، وَعَلٰی آلِەٖ وَاَصْحٰبِەٖ وَاَہْلِ بَیْتِەٖ وَاَتْبَاعِەٖ اِلٰی یَومِ الدِّیْنْ۔ آمین! یا رب العالمین!
Share on WhatsApp