Surah Yusuf Ki Do Ayat Ka Khulasa

سورہ یوسف کی دو آیات کا خلاصہ

0:00
0:00
Advertising will end in 
Nothing found!
This content is private
Please enter valid password!

درس کی تحریر: سورة یوسف کی دو آیات کا خلاصہ

اللّٰہ کی توفیق سے آج ہم تیرھواں اور چودھواں پارہ سُن رہے ہیں ، پڑھ رہے ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی ہمارے اس پڑھنے کو، سُننے کو قبول فرمائے اور اسے ہماری نجات کا سبب بنائے۔ تیرھویں پارے میں اور بارہویں کے کچھ حصے میں سُورہ یوسف موجود ہے اور یہ سُورۃ اپنے اندر اتنے سبق، عبرتیں، نصیحتیں اور دُروس رکھتی ہے کہ ہم کئی دن اس پر بات کرتے رہیں تو اللّٰہ کے کلام کا حق ہم ایسے گنہگار کیسے ادا کر سکتے ہیں۔ 

نہایت مختصر بات جو کہنی مقصود ہے کہ مُفسرین نے بلکہ بہت سے مُفسرین نے سُورة یوسف کی تفسیر لکھتے ہوئے دو آیات کے دو مختصر سے ٹکڑوں کو پوری سُورة یوسف کا خلاصہ بتایا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت یوسفؑ ، ان کے ساتھ ابتدا میں کیا ہوتا رہا، بھائیوں نے کیا کیا، ذندگی کے کن کن مرحلوں سے، نشیب و فراز سے گزرے، پھر اللّٰہ نے کیسی بلندی اور عوج و کمال عطا فرمایا، بھائی کس طرح ان کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے آئے، کس طرح انہوں نے اللّٰہ کی نعمتوں کا شکرادا کرتے ہوئے بھائیوں کو معاف کر دیا۔ باپ جو بیٹے کے غم میں اپنی آنکھیں کھو بیٹھے تھے رو رو کر۔ ان میں سفیدی اتر آئی تھی ان کی خوشی، مُسرت کا کوئی ٹھکانا نہ رہا اور انہوں نے اپنے بیٹوں کو اللّٰہ کے روبرو توبہ و استغفار کرنے کا حکم دیا۔ 

ایک ایک آیتِ کریمہ اس سورۃ میں اس قابل ہے کہ ہم ایک ایک لفظ پر رکیں، اس کی گہرائی میں اُتریں اور اپنے لیئے موتی اور جواہرات چُن لیں۔ مفسرین نے جو اس سورۃ کا خلاصہ آیتِ کریمہ کے اس ٹکڑے کو کہا ہے وہ نوٹ فرمائیے، سورۃ یوسف ہے آیت نمبر اکیس۔

 سورة یوسف، آیت نمبر ۲۱،  بارہواں پارہ۔

وَٱللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰٓ أَمْرِهِۦ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

[سورة یوسف: ۲۱]

ترجمہ: “اللّٰہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں”

یہ پہلا خلاصہ کہ “اللّٰہ اپنے حکم کو، اپنی سطوت کو، قوت کو، طاقت کو، نافذ کرنے کے لیے غالب ہے۔ کوئی ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں لیکن بہت سے لوگ اس چیز کو نہیں جانتے ہیں۔” میں، آپ اپنی زندگی میں کتنی مرتبہ اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایسا کام کہیں اٹکتا ہے، اُلجھتا ہے، رکتا ہے، پھنستا ہے کہ انسان ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے انسان ہمت ہار بیٹھتا ہے سفارش، واسطے، دوستی اور اگر رشوت کا چلن ہے تو رشوت بھی۔۔۔ کسی سے کچھ کام نہیں بنتا۔ اچانک حُکمِ ربّی آتا ہے اور اس طرح وہ معاملہ اللّٰہ کی توفیق سے حل ہوتا ہے کہ مکھن سے بال، اس کا نکلنا تو ایک مثال بنی ہوئی ہے، اللّٰہ کے لیے معاملے کا سُلجھانا اس سے کہیں ذیادہ آسان اور سہل ہے۔ اولاد کا مسئلہ ہو، اولاد کے لیے رشتوں کا مسئلہ ہو، ان کے بگاڑ کا مسئلہ ہو، رزق، کاروبار، نوکری کا مسئلہ ہو، گھریلو مسائل ہوں، بیماری ہو، سب چیزیں ان کے سامنے حَیّن ہیں آسان ہیں۔ کُن فرمائیں تو چیز ہو جائے۔ یہ پہلا خلاصہ جو بہت سے مُفسرین نے بیان کیا۔

دوسرا خلاصہ سورۃ یوسف کے آخر میں، جو مفسرین نے کہا کہ یہ بھی سورۃ کا خلاصہ زُبْدَہ اور سورۃ کا نچوڑ ہے، وہ تیرھواں پارہ سورہ یوسف آیت نمبر ۱۰۰۔

سورة یوسف تیرھواں پارہ آیت نمبر ۱۰۰ اس کا حصہ:

إِنَّ رَبِّى لَطِيفٌۭ لِّمَا يَشَآءُ ۚ إِنَّهُۥ

[سورة یوسف: ۱۰۰]

ترجمہ: “میرا رب غیر محسوس تدبیروں سے اپنی مشیت پوری کرتا ہے”

“یقیناً میرا رب جو چاہتا ہے وہ اتنی عمدگی سے باریک بینی سے اتنی مہارت سے اتنے سلیقے اور قرینے سے کر گزرتا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی ہے”

اور پوری سورہ یوسف اس پر دلالت کناں ہے۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ لوگوں کے ہاتھوں بکنے والا بچہ وہ عرشِ مصر کا مالک بن جائے گا۔ اور کس طرح بنا؟ کہ کسی کو خبر بھی نہ ہوئی اور اللّٰہ نے ایسا عروج عطا فرمایا کہ وہی بھائی جو قتل کرنے کے درپہ تھے وہی سامنے آ کر صدقہ و خیرات مانگنے لگ گئے۔ 

تو دوسرا حصہ جو مفسرین نے کہا،

إِنَّ رَبِّى لَطِيفٌۭ لِّمَا يَشَآءُ ۚ إِنَّهُۥ

[سورة یوسف: ۱۰۰]

اور ہماری زندگیاں اور ہمارے ملک میں پچھتر چھہتر برس سے ہم اسی چیز کا نظارہ کر رہے ہیں، ملک ہمارا جو ہے اور اللّٰہ اس کی حفاظت کرے کہ اللّٰہ نے ہمیں زمین کا یہ ٹکڑا عطا کیا اور جن کے پاس وطن نہیں، ملک نہیں ان سے پوچھیے کہ کہاں دربدر ٹھوکریں کھاتے، ذلیل و رسوأ ہوتے اور مال و دولت، علم و جاہ رکھنے کے باوجود دنیا بھر میں دھکے کھاتے ہیں۔ ہمارا ملک اس آیتِ کریمہ کی روشنی میں، اس چیز کی ذندہ و جاوید مثال ہے۔ تباہی میں کوئی کسر ہے باقی؟ جس ادارے پر انگلی رکھو، جس محکمے کو ٹٹولو، جس جگہ کی تلاشی لو، اندر سے وہ کچھ نکلتا ہے کہ اللّٰہ کی پناہ۔ اور اخبارات، میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ کہیں ذیادہ جانتے ہیں کہ جو ادارے لوگوں کے احتساب پر مقرر ہیں ان کے اپنے اندر وہ کچھ موجود ہے کہ اللّٰہ کی پناہ۔ جو لوگوں کو عدل و انصاف دینے پر معمور ہیں ان کے معاملات ایسے ہیں کہ اللّٰہ کی پناہ۔ اور کچھ زیادہ بات کہنے کی ضرورت نہیں سب جانتے ہیں تو یہ ملک اس چیز کی زندہ و جاوید مثال ہے کہ وہی چلا رہا ہے وگرنہ ہم نے اسے تباہ کرنے میں کوئی کثر نہیں اُٹھا رکھی، جس کا جتنا بس چلتا ہے لوٹ کھسوٹ کر کے جسم نوچ ڈالتا ہے۔

شریف وہ ہے ہمارے زمانے میں جو کرپشن کر سکتا نہیں وگرنہ جس کا ہاتھ کرپشن پر پڑ جائے اور وہ دریغ کر جائے تو ہمارے ملک میں وہ مائی کا لال نہیں ہے۔ شریف وہ ہے جس کے بس میں کچھ نہیں وگرنہ جس کا بس چلے وہ تو ملک بیچ ڈالے اور یہی کچھ ہمارے ملک کے ساتھ ہو رہا ہے اور صرف ملک کے ساتھ نہیں، نیچے نیچے نیچے گھر کی اکائی تک آ جائیں، گھر کے یونٹ تک آ جائیں، اکثر یہی کہانی ہے لیکن وہ وَحْدَہ لَا شَرِیک ہے، وہ قادر و مقتدر ہے وہ وہاب و تواب ہے جو ہر ایک کے معاملات کو چلا رہے اور ساحلِ مراد تک پہنچا رہے ہیں۔

تو میرے لیے، آپ کے لیے آج کا سبق یہی کہ ہم دل و جان سے “رب، الہٰ، معبود، خالقِ برحق”، ان کی اس چیز کو تسلیم کریں، سرِِتسلیم خم کریں۔ دل کی گہرائی سے گواہی دیں کہ ہر چیز ان کے ہاتھ میں ہے، جب وہ چاہیں چیز کو مثبت کر دیں جب وہ چاہیں ایسا الٹ پلٹ کریں کہ لوگوں کی نگاہیں خیرہ رہ جائیں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔

 رب العالمین ہمیں یہ عقیدہ عطا فرمائے، اسی پر ہم زندہ رہیں، اسی پر ہماری موت ہو اور اسی پر قیامت کے دن ہم رب کے روبرو پیش ہو جائیں کہ یہ عقیدہ اگر ہو گا تو اللّٰہ کے فضل و کرم سے نجات کی امید ہے وگرنہ ہمارے نامۂ اعمال اتنے کھوکھلے ہیں، اتنے بے روپ، اتنے بے رونق اور اتنے خالی کہ اعمال کی بنیاد پر ہم کسی طرح یہ امید کر ہی نہیں سکتے مگر سوائے اس کے کہ ان کا فضل و کرم ہو جائے۔ رب العالمین ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے۔

Share on WhatsApp