درس کی تحریر: وراثت کے مسائل: کسی ایک وارث کے حق میں وصیت کرنا
إنَّ الْحَمْدَ لِلهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ
قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : إن الله قد اعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث
اللہ کریم کی انسانیت اور اہل اسلام پر ایک عظیم نعمت کہ انہوں نے مسلمانوں کو اور انسانیت کو وراثت کا نہایت ہی عمدہ، شاندار اور بے مثال نظام عطا فرمایا اور اس کے بارے میں کہ اس کی پابندی کی جاۓ اور اس کو اپنی چالاکیوں سے خراب نہ کیا جاۓ، بہت کچھ بیان فرمایا۔
اللہ کی توفیق سے ہم گذ شتہ خطبہ جمعہ سے یہی بات سمجھنے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کون سی بری صورتیں ہیں جن کی وجہ سے بعض مسلمان یا ان کی بڑی تعداد، اور اللہ کرے وہ بڑی نہ ہو بلکہ نہ ہی ہو، مسلمان کی ایک بڑی تعداد اپنی بد بختی کے لیے اسلام کے نظام وراثت کو کھلواڑا بنا رہی ہے۔ اس میں کمی بیشی کر کے اس کی روح کو ختم کرنے کی ناپاک کوششوں میں مگن ہے۔
ایسی ہی بری اور ناپاک کوششوں میں سے ایک یہ ہے کہ مال والا اپنے وارثوں میں سے کچھ کے لیے وصیت کر دے۔ یعنی اللہ کریم نے وارثوں کا جو حصہ مقر ر فرمایا ہے اس سے آگے وصیت کرتے ہوۓ ان کو کسی چیز کے دینے کا حکم دے جاۓ۔
کیا اس کی اجازت ہے؟
آج کے خطبہ جمعہ کی پہلی مبارک تدبیر تاکہ اسلامی نظام وراثت کا مذاق بنانے سے رک جائیں۔ آج کی پہلی تدبیر یہی ہے کہ وہ لوگ جو میرے اور آپ کے وارث ہیں ان کے لیے رائی برابر۔۔۔ نوٹ فرما لیجیے۔ اور اللہ کی توفیق سے اپنی کم علمی اور اپنی کمزوری کے باوجود پوری ذمہ داری اور دیانت داری سے آپ تک بات پہنچانے کا ارادہ ہے۔ ان شاء اللہ۔
ہر وہ شخص جو میرا یا آپ کا وارث بن سکتا ہے اس کے لیے یہ بھی اجازت نہیں کہ میں اس کے لیے ایک ٹوپی کی وصیت کر جاؤں کہ یہ ٹوپی اس کو دینی ہے۔ کسی کو حق نہیں!
آئیے اس بارے میں چار محدثین کی روایت کردہ ایک حدیث سنتے ہیں۔
حضرات ائمه احمد، ترمزی، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے سیدنا ابو امامہؓ سے روایت کیا نبی محترمؐ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی نے ہر حق والے کو اس کا حق عطا فرما دیا۔
اللہ اکبر! میرا سب کچھ قربان ہو جائے ان پر۔ بات کو دینے اتارنے کا اتنا اعلیٰ انداز، اور کیوں نہ ہو ان جیسا اللہ نے کسی کو بنایا ہی نہیں اور ان جیسا انداز اللہ نے کسی کو دیا ہی نہیں۔ وہ مخلوق میں بے مثال ہیں۔.
بے شک اللہ تعالی نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا۔ اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ لیکن کس کے لیے جس کی کھوپڑی میں عقل ہو، جس کے سینے میں ایمان ہو۔
گرامر سے بات دیکھیں نتیجہ سمجھ آ جائے گا ان شاء اللہ!
“لا” اس کو کہتے ہیں نفئ جنس۔
“لائے نفئ جنس” کا صیغہ اسم نکرہ (common noun) اور یہ اسی طرح ہے کہ لَا إِلٰهَ اِلَّا اللہ کیا ترجمہ ہے؟ کوئی معبود نہیں آسمانوں میں زمینوں میں، سمندروں میں خشکی میں، زندوں میں، مُردوں میں، درختوں میں، پتھروں میں، کسی قسم کا کوئی معبود ہے؟؟ لَا إِلٰهَ اور اسی طرح لَا وَصِیَتَ ۔۔۔ بات واضح ہو رہی ہے؟ کوئی وصیت نہیں! ٹوپی نہیں، ٹوپی کے ایک حصے کی بھی وصیت کی اجازت نہیں۔
بکتے ہیں میری اماں نے یہ کہا، یہ کنگن میری فلاں بیٹی کو دے دو۔ کیوں؟؟ اللہ نے جو بیٹی کو دیا ہے اس میں ظلم ہے؟ وہ عدل و انصاف ہے! اگر وہ عدل و انصاف ہے، اب جو ہو گا کیا ہو گا؟ اور اگر یہ عدل و انصاف ہے، تو وہ کیا ہو گا؟ مجھے آپ کو حیا نہ آئے کہ اللہ کی بات اسکو ناحق قرار دیں اور اگر کوئی زبان سے بکے نہیں، میں تو نہیں دے رہا۔ بدنی بدتمیزی وہ زیادہ سنگین ہے یا زبانی بدتمیزی؟ ایکشن (action) سے اللہ کی بدتمیزی زیادہ بُری ہے یا صرف زبان سے؟ جواب دیجیے! تو یہ بدتمیز کیا کر رہا ہے؟
اور دوسری بات اس حدیث کے حوالے سے یہ ہے کہ بے شک اللہ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا۔ اب کیا ہے؟ وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔
سیدنا ابنِ عباس ؓ نے فرمایا: پہلے یہ تھا کہ اولاد کے لیے وراثت اور ماں باپ کے لیے وصیت، اللہ تعالی نے اس میں سے جو چاہا منسوخ فرما دیا۔ تو کیا کِیا۔۔ اولاد لڑکے کو لڑکی کا دُوگنا، ماں باپ ہر ایک کو 1/6 چھٹا چھٹا حصہ، بیوی کو آٹھواں یا چوتھا، اولاد ہو تو آٹھواں، اولاد نہ ہو تو چوتھا اور خاوند کو آدھا یا چوتھا، اولاد نہ ہو تو آدھا اور اگر اولاد ہو تو چوتھا۔ اللہ کریم نے جو فیصلہ سنا دیا، اب کون یہ حق رکھتا ہے کہ اس کو بدلے؟
اسی حوالے سے ایک اور بات امامِ بخاریؒ اپنی کتاب صحیح میں ایک چیپٹر(chapter) کا عنوان لکها بَابُ لاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ ، اس بارے میں باب کہ وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔
اور اسی بارے میں ایک اور بات اگر کوئی وصیت کرے اس کی کیا حیثیت ہے؟ اچھی طرح نوٹ فرما لیجیے، وہ وصیت باطل ہے، لغو ہے، وہ وصیت جوتی کے نیچے ہے۔
قرآن کریم میں سورہ البقرہ، آیت شریفہ 182، دوسرا پارہ، اللہ کریم نے فرمایا:
فَمَنۡ خَافَ مِنۡ مُّوۡصٍ جَنَفًا اَوۡ اِثۡمًا فَاَصۡلَحَ بَيۡنَهُمۡ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِؕ اِنَّ اللهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ
سورہ بقرہ:١٨٢
جس شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے کی جانب سے دلی میلان ہے اس کی وجہ سے بھول ہو گئی یا گناہ ہے، جان بوجھ کہ اس نے غلطی کی، تو اس نے کیا کیا؟ فَاَصۡلَحَ بَيۡنَهُمۡ اس نے ورثا کے درمیان صلاح کرا دی، انھیں پیار محبت سے سمجھایا کہ یہ وصیت غلط ہے، غلط ہے، غلط ہے، اس کو چھوڑ کہ حق پہ آ جاؤ۔ تو ایسا شخص جو ورثا کو سمجھا بُجھا کر حق پہ لے آئے اس پر کوئی گناہ نہیں۔ اِنَّ اللهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ اگر اصلاح کرتے ہوئے بغیر ارادے کے اپنی کوشش میں اصلاح کرنے والے سے کچھ غلطی بھی ہو جائے، چوک بھی ہو جائے، تو اللہ تعالی نہایت معاف کرنے والے بہت مہربان ہیں۔ اور بات کہیں یہاں ہی رکتی ہے؟ نہیں! اگر ورثا نہیں مانتے اور خصوصاً وہ جن کو ان کے حق سے زیادہ مل رہا ہے اور ایمان کی کمزوری ہے وہ مانیں گے؟ اس کا کیا علاج ہے؟ اسلامی ریاست پابند ہے کہ وصیت کی کجی کرے، اس کو درست کروائے۔
اس بارے میں دو واقعات سماعت فرما لیجیے اور ان دونوں سے جو بات معلوم ہوتی ہے کہ وصیت میں جو کجی ہو اسلامی ریاست اس کا حق ہے، اس کی ذمےداری ہے، اس کجی کو درست کرے۔ چاہے وہ کس قسم کی کجی ہو۔
پہلا واقعہ:
پہلی مثال امام محسن، حضرت سعد، امام محسن، حضرت عمران ابن حصین ؓ سے روایت کرتے ہیں: ایک شخص نے چھ غلام اپنی موت کے وقت آزاد کر دیے اور اس کا مال ٹوٹل سارے کا سارا چھ غلاموں کی صورت میں تھا اور کچھ نہیں۔ نبی کریمﷺ نے ان غلاموں کو بلایا، ان کو تین حصوں میں تقسیم کیا، دو دو دو کے تین گروپ بنائے اور ان کے درمیان قرعہ ڈالا، اس قرعہ کی بنیاد پر دو کو آزاد کر دیا۔ کہ ان کے مالک نے ان کی آزادی کی وصیت کی تھی اور چار۔۔ ان کی غلامی کو باقی رکھا۔ یعنی وہ اس کے ورثا کے درمیان تقسیم کیے جائیں۔ اور صرف اسی پر بس نہیں۔ نبی کریمؐ نے وَقَالَ لہُ قَولاً شَدِیدً جس نے یہ زیادتی کی تھی کہ سارے کے سارے غلاموں کو آزاد کر دیا اور اس کے پاس اس کے سوا مال نہ تھا۔ آپﷺ نے اس کے بارے میں سخت گفتگو فرمائی اور امام حمیدی کی روایت میں ہے کہ فرمایا: اگر میں اس کے جنازے کے وقت حاضر ہوتا تو میں اس کی نماز جنازہ نہ پڑھاتا۔
حضرات و خواتین توجہ کریں، یہ بیٹی بڑی پیاری ہے یہ بیٹا بڑا پیارا ہے۔ سب مکر و فریب کی کہانی ہے۔ اسلام میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اللہ نے جو چیز مقرر فرما دی اس سے آگے جانے کی قطعاً اجازت نہیں، جو جائے گا اس کا جو حشر ہوگا وہ تو ہم پچھلے خطبہ جمعہ میں سن چکے۔ اس لیے لوگ اس کی اصلاح کریں۔ اگر معاملہ ان کے بس سے باہر ہو تو اسلامی ریاست اس کی اصلاح کرے۔
دوسرا واقعہ:
حضرات ائمه عبدالرزاق، احمد، بزّار، ابو یحییٰ؛ چار محدثین نے اس حدیث کو روایت کیا، سیدنا ابن عمر ؓ اس کو روایت کرتے ہیں: ثقفی، طائف کا ایک نامور قبیلہ، اس قبیلے کا ایک شخص غیلان بن سلمہ الثقفی مسلمان ہوا۔ اس کی دس بیویاں تھیں۔ لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں، چار بیویاں۔ اور نیک بخت یہ نہیں دیکھتے کہ اسلام نے جو تعداد کم کی، اور صرف کم نہیں کی ساتھ عدل و انصاف کا حکم دیا۔ وہ دس بیویوں والا اب مسلمان ہوا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا نہیں! ان میں سے چار کو رکھو باقی کو چھوڑ دو، وہی کیا جس کا حکم دیا گیا۔
اب کیا ہوا، جناب فاروق ؓ ان کا دور خلافت ہے۔ غیلان نے اپنی چاروں بیویوں کو طلاق دی اور سارا مال اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کر دیا۔
جناب فاروق ؓ انھیں خبر ہوئی تو فرمایا شیطان نے اس کی موت کے بارے میں کچھ آسمانوں سے خبر سنی ہے، شیطان جاتے ہیں نا اوپر اور ستارے ان کا تعاقب کرتے ہیں۔ تو فرمایا شیطان نے اس کی موت کے بارے میں کچھ بات سنی ہے، تو شیطان نے اس کے دل میں ڈال دیا ہے کہ تو جا رہا ہے۔ تو اس نے کیا کیا؟ بیٹوں کی محبت میں۔۔ یہ محبت، میں تشریح میں کہہ رہا ہوں، تو اس نے بیٹوں کو وارث کر دیا اور بیویوں کو چُھٹی کر دی کہ میں تو جا رہا، اب بیویاں کیا کرنی ہیں۔
جناب فاروق ؓ نے کیا حکم دیا، توجہ سے سماعت فرمائیے اور اس حکم کو لوگوں میں عام کیجیے اور اپنی زندگی بھر اس سبق کو نہ بھولیے فرمایا: وَايْمِ اللهِ وَلَتَرْجِعَنَّ فِي نِسَائِكَ لَتَرْجِعَنَّ فِي مَالِكَ اللہ کی قسم تو اپنی بیویوں سے ضرور یقیناً رجوع کرے گا اپنا مال یقیناً ضرور واپس لے گا أَوْ لَأُوَرِّثُهُنَّ، وَلَآمُرَنَّ بِقَبْرِكَ فَيُرْجَمُ كَمَا يُرْجَمُ قَبْرُ أَبِي رِغَالٍ اگر تو نے ایسے نہ کیا اپنی بیویوں سے رجوع نہ کیا اور مال کو واپس نہ لیا تو کیا ہو گا۔ میں یقیناً ضرور ان بیویوں کو تیرا وارث بناؤں گا۔ اور تجھے کیا کروں گا؟ تیری قبر پر رجم کیا جائے گا، تیری قبر کو سنگسار کیا جائے گا۔
جس طرح ابو رغال، وہاں ایک مشہور آدمی ہے اور مؤرخین نے یہ کہا کہ وہ شعیبؑ کا غلام تھا اور لوگوں سے زبردستی مال چھینا کرتا تھا اور اس کی قبر پر پتھر مارے جاتے تھے۔ اب ان میں مشہور بات تھی تو جناب فاروق ؓ نے فرمایا اگر تو نے بیویوں سے رجوع نہ کیا اور اپنا مال واپس نہ لیا تو میں کیا کروں گا؟ امیر المؤمنین کی حیثیت سے ان بیویوں کو یقیناً ضرور تیرا وارث بناؤں گا اور تیرے ساتھ کیا کروں گا؟ تو تو مر جائے گا! تیری قبر کو سنگسار کروں گا۔ ضرور جس طرح ابو رغال کی قبر کو سنگسار کیا جاتا تھا۔
تو ہم کیا بات سن رہے ہیں، اگر وصیت کرتے ہوئے کوئی شخص شریعت سے ہٹے گا اس کو چھوڑا نہ جائے گا۔ اس کی وصیت کو لوگ بدلیں گے جو بدل سکتے ہوں اور اگر وہ معاملہ لوگوں کے بس سے باہر ہو تو کون مداخلت کرے گا؟ اسلامی ریاست اس کی وصیت کو بدل کے ٹھیک نظام کو جاری و ساری کرے گی۔
انہی واقعات میں ایک اور بات جو واضح ہو رہی ہے کہ کوئی شخص اپنی وصیت میں، وارثوں کو نہیں دیتا، کسی اور کو بھی دے، ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت نہیں کر سکتا۔
زندگی اس کا معاملہ جدا ہے۔ وہ بعد میں ان شا اللہ! اللہ کرے کہ آئے اور ہم سمجھ سمجھا سکیں، یہ سب جو بات ہو رہی ہے وہ کیا ہے، کسی شخص کو اجازت نہیں کہ مرتے وقت یا اس سے پہلے یہ کہہ جائے کہ میرا آدھا مال مسجد کو دے دو، میرا سارا مال مدرسہ کو دے دو۔ نہیں! مرتے وقت مال میں سے نیکی کے کاموں پر خرچ کرنا اس کی بھی مقدار معین ہے۔
انشا اللہ اسی نقطہ سے آئندہ گفتگو کا آغاز کرنے کا عاجزانہ ارادہ ہے۔ اللہ ٹھیک بات کہنے اور سننے کی اور اس پر عمل کرنے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين